Thursday, August 24, 2023

قصہ عروج و زوال ، میں نے کیا دیکھا ،کیا سیکھا؟

 


جناب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کا قول مبارک ہے کہ جب زمانہ مہربان ہوتا ہےتو اپنی صفات بھی ودیعت کر دیتا ہے اور جب مخالفت پر اترتا ہے تو انسان کی ذاتی صفات بھی چھین لیتا ہے۔۔ عروج و ذوال زندگی کا حصہ ہیں ۔۔ جو چیز اوپر جاتی ہے وہ واپس نیچے بھی آتی ہے۔۔۔
میں نے پچھلے سترہ سال سے پاکستانی الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہوں۔۔ اس عرصے میں بہت سے عروج و ذوال دیکھے۔۔۔ عروج سے زیادہ ذوال میں آزمائش دیکھی۔۔۔ زمان و مکان کی قید میں گزرنے والی یہ زندگی ، انسان کو بے صبرا اور ناشکرا بنا دیتی ہے۔۔۔ عروج میں انا آزمائش بنتی ہے اور ذوال میں تنزلی انسان کو نا شکری اور نا امیدی کی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔۔۔
انسان کو اللہ نے اپنی صفات ودیعت کی ہیں۔۔۔ ان صفات کا بوجھ اکثر مجھ جیسے کم ظرف اُٹھا نہیں پاتے اور مقام کو منزل اور لمہے کو ہمیشگی سمجھ بیٹھتے ہیں۔۔۔ ان حالات میں صرف اللہ کی رحمت ہی راستہ دیکھاتی ہے اور تباہی سے بچاتی ہے۔۔
میں ایک سال سے تقریباً بے روزگار ہوں۔۔۔ اس بار حالات نے بہت کچھ سیکھایا ہے۔۔۔ میرے چند تجربات یہ ہیں
۱۔ اللہ کی رحمت پار لگاتی ہے۔۔ ٹیلنٹ ، محنت کامیابی کے تقاضے ضرور ہیں لیکن اگر رحمت نا ہو تو یہ سب کچھ بیکار ہے۔۔۔ مثال کے توڑ پر اگر آپ میرا نام گوگل، گوگل سکالر یا گوگل بُکس پر سرچ کرین تو آپ کو بہت سے رزلٹ مل جائین گے۔۔۔ میری سی وی پڑھین تو آپ کا یہی خیال ہو گا کہ میری سی وی بہت مضبوط ہے۔۔۔ میرے اساتزہ گواہی دین گے کہ میں بین الاقوامی تعلقات کے سبجیکٹ میں کافی مضبوط ہوں۔۔۔ الحمدوللہ طارق اسماعیل ساگر جیسے لینجڈ صحافی میرے یو ٹیوب چینل کو سول ملیٹری بیوروکریسی کو ریکیمنڈ کر چکے ہیں۔۔۔ لیکن میں ایک سال سے بے روزگار ہوں۔۔ ہر تیسرے روز میرا کوئی کالم یا تحریر شائع ہوتی ہے ۔۔لیکن پھر بھی تمام کوششون اور سفارشوں کے باوجود میں بے روزگار ہوں۔۔۔۔ مگر کیوں۔۔۔ شاید مجھ سے عروج کے زمانے میں کوئی غلطی ہوئی۔۔۔یا پھر میں اپنے رب سے اپنے تعلق میں کوتاہی کر بیٹھا۔۔۔ یا میرے رب نے مجھے نوازنے کے لئے اس آزمائش میں ڈالا۔۔۔ حاصل کلام یہ یاد رکھیں کے وہ یوسف علیہ السلام جن کی ایک جھلک نے زنانان مصر کو ایسا مبحوص کیا کہ انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لین ۔۔۔ وہی یوسف علیہ السلام مصر کے بازار میں کتنا سستا بیچے گئے۔۔۔۔ پھر یہی یوسف عزیز مصر کے گھر میں پلے اور تمام آزمائیشون سے گزر کر خود عزیز مصر بنے ۔۔۔ یہ اصول یاد رکھین رحمت پار لگاتی ہے رحمت کے بغیر بندہ ایک قدم چلنے کی طاقت و ہمت نہیں رکھتاَ۔۔۔
جے ویکھاں میں عملاں ولے،تے کُج نئی میرے پلّے
تے جے ویکھاں تیری رحمت ولّے،تے بلّے بلّے بلّے
۲۔ جب تک رب نا چاہے کوئی خیر یا پھر شر نہیں پہنچا سکتا۔۔۔ ہم ساری عمر دوسرون پر شک کرتے ہیں اور کدورتین پالتے ہیں ۔۔۔ لیکن یقین جانین کئی بار آپ کے دوست اور ہمدرد صدق دل سے آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن مقام و عہدہ رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔۔۔ اور کئی بار جب رب نے نوازنا ہوتا ہے تو ایک اجنبی آپ کے لئے وسیلہ بن جاتا ہے ۔۔۔ رب سے تعلق میں سچے رہین ۔۔ نا امیدی پاس بھی نہیں بھٹکے گی۔۔۔ سختی آگے کے مقام کی ٹریننگ کا سبب بنے گی اور مضبوط کرے گی۔۔۔
۳۔ مان باپ اولاد کی چھوٹی سی تکلیف نہیں برداشت کر سکتے ہالنکہ انہوں نے آپ کو بنایا نہیں۔۔۔ پھر آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ جس نے آپ کو پیدا کیا، آپ میں روح پھونکی۔۔۔ وہ آپ کو تکلیف دے کر خوش ہو گا۔۔۔ تکلیف و آزمائیش یا تو آپ کی ٹریننگ کے لئے آتی ہیں یا پھر آپ کو پاک کرنے کے لئے۔۔۔ اب جو خود احتسابی کی راہ پا گیا وہ کامیاب ہوا اور مضبوط ہوا اور جو یہ اسباق نہیں سمجھ سکا اُسے مذید بھٹی میں جلنا پڑا
۴۔ کوئی سختی بغیر حکمت کے نہیں ہوتی۔۔۔ میں پچھلی اگست تک ایک نجی چینل کا ہیڈ کرنٹ افئیرز تھا۔۔۔ میں نے اپنی عزت اور وقار کے لئے استعفہ دیا۔۔۔ حالات نے مجھے اشارہ کیا کہ میں میڈیا کو خیر آباد کہنے کی تیاری کروں اور اپنی تعلیم مکمل کروں۔۔۔ میں نے اشارہ پہچانا اور ایم فل بین الاقوامی تعلقات میں ایڈمیشن لے لیا۔۔۔ آج ایک سال بعد میرا تھیسس شروع ہو گیا ہے۔۔۔ اللہ نے چاہا تو انشاء اللہ دسمبر تک تھیسس مکمل کر لون گا۔۔۔ اگر میں جاب پر ہوتا تو شاید ایم فل نا کر پاتا اور شاید پہلے سمسٹر میں ہی چھوڑ چکا ہوتا۔۔۔ میں اگر اب نا شکری کرون تو حقیقتاً یہ نا شکری ہو گی کیونکہ اس عرصے میں میں نے جو کچھ سیکھا وہ جند لاکھ روپون سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔ میرے لئے نئی راہین کھل رہی ہیں اور میں اُس فیلڈ کی طرف جا رہا ہوں جو ہمیشہ سے میری محبر رہی ہے۔۔۔۔ سو یاد رکھین ہر کام میں اللہ کی حکمت ہے۔۔۔ اور اللہ کا ہر فیصلہ بندے کے لئے خیر اور مبارک ہے۔۔
۵۔۔ میں اصول پرست انسان ہوں اور ایک حد سے زیادہ اصولون پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔۔۔ اسی لئے میرا موجودہ حالات میں میڈیا سے دور رہنا میرے لئے رحمت رہا۔۔
ذوال ،عروج سے زیادہ سیکھاتا ہے بلکہ میں یہان تک کہوں گا کہ عروج کے بعد آنے والا ذوال آپ کو توڑتا ہے اور پھر رب کی رحمت ہو تو ایک من موہنا ظرف بنا دیتا ۔۔۔۔ بس ایک چیز سمجھنی لازمی ہے۔۔۔ سلامتی اللہ کے ساتھ سچے تعلق میں ہے۔۔۔۔ رحمت ہی پار لگاتی ہے۔۔۔ نا دوست کام آتے ہیں، نا رشتے اور نا ہی کوئی ہنر۔۔۔۔

Thursday, July 6, 2023

The Era of Neo Ignorance




 

We live in an era of neo-ignorance. We are surrounded by information, but we are more ignorant than ever before. We have so much sight but alas have too little vision to see what have we become. We worship idols of our selfish interests, and our actions do not match our words. Our thinking patterns match those of the jahiliyyah, the age of ignorance before Islam. We unite against good, knowing we are wrong, but the status quo suits us. Greed has taken our sense of pride, honor, and right. We do good not for the sake of pleasing Allah, but to show off, to save tax, and all the other hypocritical reasons one can find. Alas, we call ourselves Muslims, but Islam is practiced only when it suits us, and we become jahils when our interests suit jahiliat.

This is the era of neo-ignorance. We are a generation of people who have been raised on the internet, where information is instantly available at our fingertips. But with this abundance of information comes a new problem: we don't know what to believe. We are constantly bombarded with conflicting news stories, opinions, and facts, and it can be hard to know what is true and what is not.

In the Era of Neo Ignorance, we are also more likely to believe things that confirm our existing beliefs. This is called confirmation bias, and it is a powerful cognitive bias that can lead us to make poor decisions. For example, if we are already convinced that climate change is a hoax, we are more likely to believe news stories that support that belief, and we are more likely to dismiss news stories that contradict it.

Confirmation bias can also lead us to surround ourselves with people who share our beliefs and to avoid people who have different beliefs. This can create an echo chamber, where we are only exposed to information that supports our existing views. This can make it very difficult to change our minds, even when presented with new evidence.

The Era of Neo Ignorance is a challenge for everyone, but it is especially challenging for Muslims. As Muslims, we are commanded to seek knowledge and to understand the world around us. But in the Era of Neo Ignorance, it can be difficult to know where to start. There is so much information out there, and so much of it is conflicting.

How can we navigate the Era of Neo Ignorance and still remain true to our Islamic values?

· Be critical of the information you consume. Just because something is on the internet doesn't mean it's true.

· Be open to different viewpoints. Even if you don't agree with someone, it's important to listen to their perspective.

· Be willing to change your mind. If you're presented with new evidence, be willing to reconsider your beliefs.

· Surround yourself with people who challenge you intellectually. This will help you to think critically and to avoid falling into echo chambers.

· Be your self and be proud of what you are. You have a rich history, understand your paradigms which will help you to come out of paradoxes you have entrapped your self.

· Understand Quran and Hadith and let your knowledge and Love for your lord and his Prophet guide you in right direction.

The Era of Neo Ignorance is a challenge, but it is also an opportunity. We can use this time to learn and to grow, and to become better Muslims. We can use this time to build bridges between different cultures and to promote understanding and tolerance. We can use this time to make a difference in the world.

Let us not be a generation of neo jahils. Let us be a generation of Muslims who are guided by love , knowledge, wisdom, and compassion. Let us be a generation of Muslims who make a difference in the world.