Friday, July 5, 2019

خود کلامی

Image result for darvesh



دنیاوی علوم میں سب سے اہم علم تاریخ کا علم ہے۔۔ جو قومین تاریخ کے علم کو غیر ضروری سمجھنے لگتی ہیں ۔۔وہ اپنی تباہی کا سامان اکھٹا کرنے لگتی ہیں کیونکہ اُن سے تاریخ سے لا علمی وہ غلطیان کرواتی ہے جو اُن سے پہلے کی کئی قومیں سرزد کر چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔
ادب شاعری اور فلسفہ وغیرہ میں دلچسپی جہاں قوم کے شعور کو بڑھاتی ہیں اور تہذیب کو ترقی دیتی ہیں وہیں یہ ذہنی عیاشی ، قومی کمزوری کا سبب بنتی ہیں۔۔۔ ہسپانیہ سے لے کر ،خلافت عباسیہ اور عثمانیہ اسی ذہنی عیاشی کا شکار ہو کر ذوال پزیر ہوئیں۔۔۔ جس وقت یورپ تاریخی غلطیوں کو دور کرتے ہوئے سائینس اور فوجی ترقی کے مراحل سے گزر رہا تھا ۔۔ہم مسلمان ذہنی عیاشی کا شکار شعر و ادب میں پڑے اپنی مردانہ صفات کھو رہے تھے۔۔۔ کاش ہم نے گزری کل سے کچھ سیکھا ہوتا ۔۔۔ یا آج ہم سیکھ رہے ہوتے۔۔۔

خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں




 **********************                             

آج کے صوفی کی سب سے بڑی غلطی خود شناسی کی راہ میں چلتے چلتے دنیا و مافیاسے بے ہوشی ہے۔۔ خود شناسی اگر رب کی پہچان نا کروائے اور رب کی پہچان کے باوجود انسان رب کی منشا نہ سمجھ سکے۔۔۔ اور عشق کے نام پر کیفیات کے نشے میں کھویا رہے تو کیا وہ کچھ بھی پا سکا؟۔۔ اور پھر حضور ﷺ کے حکم کے مطابق دنیا اور مافیا میں توازن قائم نا کر سکے تو کیا اسے رحمت کہیں گے؟ خود شناسی ترک دنیا نہیں بلکہ خلافت ارضی کے میعار سمجھاتی ہے ۔۔ اور پھر اُس مرد درویش کا فرض بن جاتا ہے کہ اپنی ڈیوٹی سنبھالے جس کے لئے اُس کے ابا حضرت آدم کو دنیا میں بھیجا گیا۔۔۔۔

ہو حلقہ یاران تو بریشن کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

دنیا سے بے ہوشی سے بھی بُری کیفیت یہ ہے کہ انسان مسئلے پر تو کچھ ہو مگر کاروبار دنیا میں مسئلے پر سیکھے آداب بھلا دے۔۔ یعنی وہ منافقت کی کیفیت کا شکار ہو کر دو رنگا ہو جائے۔۔۔ دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہی مسلمان کا اولین فرض ہے۔۔۔ جو اس توازن کو قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ کامیاب اور جو یہ توازن قائم نا کر سکا وہ ہی در اصل ناکام


                              **********************                                                    

صاحبان عشق ہی با اُمید اور سخی ہوتے ہیں۔۔ ان کی صحبت سے کوئی کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔۔ نا امیدی کی بڑی وجہ عشق سے دوری یعنی محبوب سے محبت پر شک اور گمان بد کی موجودگی ہے۔۔۔ گمان بد بھی وہ جو خود اپنی سچائی کو متنازع ہنادے۔۔۔
حق کی بات تو یہ ہے کہ اگر مجازی عشق بھی ہوس کی جگہ واقعی عشق ہو تو اس عشق  کا اختتام بھی عشق حقیقی ہے۔۔۔ کیونکہ  عشق کا مفہوم ہی اپنی ذات کو محبوب کی ذات میں فنا کر دینا ہے۔۔۔ 
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر
عشق  اُن مردان حُر کا شیوہ ہے جن کے نذدیک اُن کی ذات کی فنا اور محبوب کا قائم ہو جانا ہی در اصل کامیابی ہے۔۔۔ جس گُل کو سونگھتا ہوں بو تیری ہے۔۔۔عاشقین حق پُر امید ، ایثار و قربانی کا پیکر ، صفات و خیالات میں شُدہ   ، محبوب کی رضام میں  سب کچھ لُٹانے کو تیار ، یعنی سخی و فیاض ہوتے ہیں  اور یہ لوگ اُس آئینے کی طرح ہوتے ہیں جس میں خالق کی حسن تخلیق برملا نظر آتی ہے۔۔۔عشق کی راہ میں سب سے بڑا امتحان، سب سے بڑی آزمائش  شک کا پیدا ہونا ہے۔۔۔ شیطان کا سب خطرناک ہتھیار مخلوق کے قلوب میں شک کا بیج بیجنا ہے۔۔۔ پس جو مسافر عشق ہو اُس کی کامیابی صرف اور صرف  منزل پر نظر اور راستے کے مناظر سے بے ہوشی میں  ہے۔۔ ورنہ محبت کبھی عشق نہیں بنے گی اور ایک ایسی انا تشکیل پائے گی جو راستوں میں ایسا بھٹکائے گی کہ منزل ہر قدم دور ہوتی جائے گی۔۔۔

پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی

No comments:

Post a Comment