Tuesday, March 25, 2014

ذہنی غلامی ، قومی کرادر اورقومی طاقت



بنی اسرائیل کو فرعون سے آزادی مل چکی ہے ۔۔۔ اتمامِ حجت ہو چکی ہے ۔۔۔وہ اپنی آنکھوں سے جناب موسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں رونما ہونے والے معجزے دیکھ چکے ہیں ۔۔۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی آنکھوں سے فرعون کے لشکر کو اپنے پورے جاہ وجلال سے سمندر برد ہوتے دیکھا ہے۔۔فرعون اور اس کا لشکر ہی سمندر برد نہیں ہوا بلکہ گروہ ابلیس کے پیروکاروں کی جھوٹی خدائی ، اور ظلم و نسل پرستی کے غلیظ بت حق اور توحید  کے سامنے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔۔۔
 اللہ کی رحمت سے صدیوں کی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی ہے۔۔۔ اتنی بڑی نعمت ۔۔۔ اتنی بڑی رحمت اور بنی اسرئیل ، ہر سو شادمانی ہی شادمانی ہے۔۔۔۔
موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے جاتے ہیں۔۔ پیچھے اپنے بھائی اور وقت کے نبی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔فرعون کا وفادار غلام سامری ، بچھڑا بناتا ہے۔۔۔ ویسا بچھڑا جیسا مصری معبدوں میں ہوتا تھا۔۔۔ اور بنی اسرائیلی اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ ہارون علیہ السلام اور ان کے کچھ پاکیزہ حواری انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔۔۔
موسیٰ علیہ السلام طور سے اترتے ہیں ۔۔۔ قوم بت پرست بن چکی ہے اور افسوس ناک بات کہ پوجا بھی اسی بت کی جس کی پوجا ۔۔۔ مصری کرتے تھے۔۔۔ افسوس ہے تجھ پر اے قوم بنی اسرائیل ۔۔۔ نبیوں کی اولاد ہے تو۔۔۔ لیکن غلامی نے تجھے کم ظرف  و کم عقل بنا ڈالا ہے ۔۔۔ زندگی کے وہ پیٹرن اور عادات جو تو نے وقت غلامی میں سیکھے ۔۔۔ اب وہ تیری فطرت کا حصہ بن گئے ہیں۔۔۔ تو جانتے ہوئے بھی جاہل۔۔۔ معجزات و آیات خداوندی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اندھا رہنے پر کیوں بے تاب۔۔۔
جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے۔۔۔ جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کر دیتی ہے۔۔۔ غلام آقا کو لا شعوری آئڈیل مان لیتا ہے۔۔۔ جسمانی آزادی کے بعد ہر شے اپنے آقا کی طرح کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آزادی کے بعد بھی اپنے آقا کی ہی خوشنودی کی چاہ رکھتا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ ایک عجیب قسم کی خودی کا شکار بن جاتا ہے اور اپنی ذہنی اور جھوٹی انا کی تسکین اور بھوک مٹانے کی خاطر تمام اخلاقیات بھلا کر چلنے کو عین حق سمجھتا ہے۔۔۔
ذہنی غلامی ان رویوں کا باعث بنتی ہے جو مزید غلامی کا باعث بنتے ہیں۔۔۔ جب عدل کا پیمانہ خواہش نفس اور ذاتی یا گروہی مفاد بننے لگیں تو معاشرے تباہی کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔۔۔
علم سیاسیات کی رو سے قومی طاقت کو چند عوامل کے حاصل سے ناپا جاتا ہے جن میں جغرافیہ، فوجی طاقت، معاشی طاقت ، آبادی ، انڈسٹریل صلاحیت، قومی کردار اور حوصلہ وغیرہ شامل ہیں۔۔۔
ان سب عوامل میں اہم ترین قومی کردار اور حوصلہ ہے ۔۔۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ قومی کردار ہی وہ اہم ترین سبب تھا جس سے قوموں کو عروج نصیب ہوا۔۔۔ جرمنی دو دھائیوں میں دنیا سے ٹکر لینے کو تیار ہو گیا۔۔۔ جاپان ناگا ساکی اور ہیروشیما کی تباہی کی کچھ ہی سالوں بعد دنیا کی معاشی طاقت بن  کر ابھرا۔۔۔۔ چین جو افیمیون کا ملک کہلاتا تھا ۔۔ آج دنیا کی سپر پاور ہے۔۔۔
قومی کردار ، قوم میں بسنے والے افراد کے کردار کا مجموعہ ہوتا ہے۔۔۔ جب قوم میں سچ اور باطل، فرض اور حق کا تصور پختہ ہو جائے تو ترقی اور کامیابی  ہر موڑ پر قدم چومتی ہے۔۔۔ اس کے برعکس اگر حق و باطل پر ذاتی اور گروہی مفادات غالب آ جائین تو امن اور خوشحالی منہ موڑ لیتی ہے۔۔ ہر طرف افراتفری ہوتی ہے۔۔۔ طاقتور کمزور کی ہڈیان چباتا ہے۔۔۔ اور کمزور اس کا بدلہ اپنے سے کمزور  اور ظلم کا پہلے سے شکار معاشرے سے لیتا ہے۔۔۔
معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔۔ ادارے بےکار ہو جاتے ہیں۔۔ کرپشن، ڈر ، بے راہروی ، غربت اور بے حسی ڈیرے ڈال دیتی ہے۔۔
فرعون سے آزادی اکثریت کے لئے جسمانی آزادی تھی ۔۔۔ اسی لئے غلام پھر اپنے آقاؤن کے طریقے اپنانے لگے۔۔ اللہ نے اپنی نبی موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کی موجودگی کی بدولت پھر سدہرنے کا موقع دیا لیکن وہ بدکرداری جو فرعون کی ذہنی غلامی کی بدولت آ چکی تھی اس نے من و سلویٰ چھوڑ کر اسرائیلیون کو مسور ، ککڑی اور پیاز وغیرہ کی فرمائیش پر مجبور کیا۔۔۔ گویا نا شکری اور من مانی کی طرف راغب کیا۔۔۔ اللہ اس قوم پر رحمتیں فرماتا رہا ۔۔ اس میں نبی بھیجے مگر یہ نبیوں  سے برا سلوک کرتے رہے ، اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتے رہے اور ان کی  نفس پرستی انہیں تقسیم در تقسیم کرتی رہی۔۔۔ یہ آیات خداوندی کی اپنی پسند کی تشریحین کرنے لگے۔۔۔ ان کے علماء بھی سوداگر اور ان کے لیڈر بھی سوداگر بن گئے۔۔۔مفاد اور صرف مفاد ان کا پیمانہ عدل ٹھہڑا یہاں تک کے ایک وقت آیا کہ اللہ رب العزت نے ان کو لعین ٹھہرا دیا۔۔ اور پھر بے بسی اور بے کسی  ان کا مقدر بن گئی ۔۔ کبھی ٹائیٹس نے انھین مارا تو کبھی ہٹلر ان کی قسمت بنا ۔۔۔اور یہ دنیا بھر میں خوار پھرتے ،چھپتے اور بھٹکتے  رہے ۔۔۔
پچھلے ہفتے بیٹے کا نتیجہ تھا ۔۔۔ اس کے ایک کلاس فیلو کے والدین بھی آئے ہوئے تھے۔۔
والدہ ٹیچر سے کہہ رہی تھی۔۔
We have banned urdu speaking in our house. Yester day I over heard my son talking to his father in urdu at the end of the talk he requested his father not to tell this to mama
ہم نے گھر میں اردو بولنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔۔ کل میرا بیٹا اور اس کے والد اردو میں بات کر رہے تھے۔۔ بات ختم کرنے کے بعد  بیٹے نے اپنے باپ کو درخواست کی کہ امی کو نا بتائیے گا۔۔۔
محترمہ بولی آپ لوگوں کی مشکور ہوں کے آپ کی وجہ سے بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے اور انگریزی بھی اچھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔
میں نے اور ام الصمد نے بڑی مشکل سے ہنسی روکی۔۔۔ لیکن گھر آتے ہوئے میرے دل میں غلامی اور آزادی پر سوال اٹھنے لگے۔۔ غلامی کیا ہے؟؟ آزادی کیا ہے؟؟؟
شام گھر  سکائیپ پر ماموں  سے لندن بات ہوئی۔۔۔ پتا چلا کہ ماشاء اللہ میرے ماموں زاد بھائی کو ویسٹ منسٹر کالج میں سکالر شپ ملی ہے۔۔۔ اس کے علاوہ اسے برطانیہ کے ٹاپ کے پانچ کالج سکالر شپ دینے کی آفر کر چکے ہیں۔۔۔ بہت ہی خوشی کی بات تھی۔۔۔ کہ میرا بھائی نے اپنی محنت سے پاکستان کا نام اونچا کیا ہے۔۔۔
میرے مامون کا بیٹا یعنی میرا کزن اپنی قابلیت سے برطانیہ کے صف اول کے کالج ویسٹ منسٹر کالج میں سکالر شپ پاتا ہے۔۔۔ برطانیہ کے ٹاپ کے پانچ کالج اسے سکالر شپ دینے کی آفر کر رہے ہیں کسی گورے کو خیال نہیں کہ وہ ایک پاکستانی اور ایک مسلمان کو اتنا اعزاز اور رسپیکٹ دے رہے ہیں۔۔
دوسری طرف میری بیٹی جو پلے گروپ کا انٹر ویو اس طرح دیتی ہے کہ چار پانچ بار انٹرویو لینے والی اس کے اعتماد اور انٹیلی جنس کی تعریف کرتے ہوئے اسے بہت انٹیلی جینٹ بچی کہتی ہے ۔۔۔ اس سکول میں رہ جاتی ہے۔۔۔ میرے جانے پر بتایا جات ہے کہ اس کے 78 فیصد مارکس تھے جبکہ میرٹ 85 فیصد تھا۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ کا نمبر دینے کا میعار کیا ہے تو خاموشی۔۔۔ نمبر جو ٹیچر نے دیئے وہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہوں تو انکار کر دیا جاتا ہے۔۔۔ پتہ چلتا ہے کہ کسی کی سفارش سے کوئی آگے آ گیا اور یہ پیچھے کر دی گئی۔۔۔ ایک جاننے والی ٹیچر کہتی ہے کہ آپ کو سفارش کرانی چاہئے تھی کیونکہ ڈیڈھ سو بچے رکھنے تھے اور چار سو سے زیادہ نے اپلائی کیا۔۔۔

آج میں ،با حیثیت میڈیا پرسن اور سوشل سائینٹسٹ  پاکستان کو لاحق بیماریوں کا جائیزہ لیتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کے مں حیثیت قوم ہم بھی بنی اسرئیل کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔۔۔ اللہ رب العزت کی لاتعداد رحمتوں کے باوجود ہم کمزور ہیں ۔۔ جس کی وجہ اب تک ہماری اشرافیہ اور عوام کو لاحق انگریز کی ذہنی غلامی ہے۔۔ تھیوری آف سٹریٹیجک کلچر پر کئے پروفیسر حسن عسکری رضوی اور برگیڈئیر فیروز حسن خان کے کام کے مطابق پاکستانی اشرفیہ ایک طرف تو خود کو مسلم رویات کا امیں سمجھتی ہے دوسری طرف برطانوی ٹریڈیشنز پر فخر بھی کرتی ہے اور یورپ کی تقلید کو ترقی کا راستہ سمجھتی ہے۔۔۔
عوام ہمیشہ اشرفیہ کی تقلید کرتی ہے۔۔۔ اور اشرفیہ وسٹرن یا بریٹش ٹرینڈ ہونے پر جہاں ناز کرتی ہے وہاں بھول جاتی ہے کہ  انگریز حاکم تھا  ۔۔۔ اس نے برصغیر فتح کیا تھا۔۔ اس کو زیب دیتے تھے پروٹوکال اور عیاشیان ۔۔۔ جبکہ یہ اشرفیہ جن پر حکومت کر رہی ہے وہ اسی کے ہم نسل اور ہم وطن ہیں۔۔۔
اشرافیہ کے اسی رویے کی وجہ سے عوام بھی کنفیوز  اور انتشار کا شکار ہے اور ابھی تک کوئی سمت نہیں چن پائی اور من مانی اور بے عدلی کو وطیرہ بنائے ہوئے ہے۔۔

 پاکستان کو اگر موجودہ حالات سے نکالنا ہے اور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لانا ہے تو قوم کو شعوری طور پر تعلیم اور کردار سازی پر توجہ دینی ہو گی ۔۔۔ عدل اور انصاف کو ذاتی یا گروہی مفاد پر مقدم جاننا ہو گا۔۔۔ ورنہ  جہان پلے گروپ کے لئے سفارش درکار ہو وہ قوم اگلے ہزار سال میں بھی برطانیہ یا مغرب کے پاؤن کی خاک تک نہیں پہنچ سکتی۔۔۔

اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ذلتون کے گڑھے  میں گرنا ہے یا دنیا میں سر اٹھا کر خوشحال زندگی گزارنی ہے۔۔۔
اللہ ہم پر رحم فرمائے اور عظمت کردار عطا فرمائے۔۔۔
آمین ۔۔ ثم آمین