Thursday, July 11, 2019

عاجزی ،انسان اور حیوان

Image result for street fight



بقول شاعر بچھڑے ہوئے احباب جب مل جاتے ہیں طاق دل افسردہ بھی سل جاتے ہیں پی کہ جو نکلتا ہوں میں سوئے چمن غنچے میری تعظیم میں کھل جاتے ہیں کئی دھائیوں کے بعد امجد سے ملاقات ہوئی۔۔۔ امجد میرے بچپن کا دوست ہے۔۔۔ اُس زمانے کا جب میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔۔۔ میرے اور امجد کے والد دونوں ہی اُس وقت فوج میں تھے۔۔۔ یعنی ہماری دوستیان دو سالوں سے زیادہ نا چلتیں اور والد کی کسی نئی چھاونی میں تبادلہ ہو جاتا۔۔۔ 1984 کے بعد آج ہماری ملاقات 2019 میں ہوئی یعنی 35 سال بعد۔۔۔ نا امجد مجھے پہچانا اور نہ ہی میں اُسے پہچان سکا۔۔۔ گفتگو کے دوران بات سامنے آئی کہ حضرت بھی منگلا کینٹ میں کہکشان نرسری آئینڈ اسکول میں اُس زمانے میں جماعت 2 بی کے طالب علم تھے یعنی میرے ہم جماعت جبکہ اُن کی رہائش بھی میرے گھر کے قریب ہی تھی۔۔۔۔ امجد سے بات ملاقات نے کئی گمی یادین تازہ کر دین۔۔۔ آج میں 42 سال کا ہو چکا ہوں جوانی آہستہ آہستہ عروج سے ذوال کی جانب گامزن ہے۔۔۔۔ شاید ہر صبح کا سفر شام کی ہی جانب ہوتا ہے ۔۔۔ اور پھر رات جو نئی صبح کی نوید دے رہی ہوتی ہے۔۔۔ خیر امجد کے جانے کے بعد میں منگلا کے زمانے میں چلا گیا۔۔۔ کیا عمدہ زمانہ تھا۔۔۔ بے شک میں اُن خوشقسمتوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنا بچپن خوب انجوائے کیا۔۔۔ یہ منگلا میں رہائش کا ہی زمانہ تھا۔۔۔ ابو کی پوسٹنگ سیاچن تھے اور فیملی کی رہائش فوج نے منگلا میں دی ہوئی تھی۔۔۔ صبح اسکول جانا ، واپس آ کر نہا دھو کر کھانا کھانا۔۔۔ پھر امی نے پڑھانے کے لئے بیٹھا لینا ۔۔۔ کام ختم ہوتا ہی تھا کہ قاری صاحب آ جاتے۔۔۔ اب عصر سے لے کر مغرب تک ہمارا وقت ہوتا۔۔۔ یہ اُسی زمانے کی بات ہے کہ ہمارا معمول تھا کہ جہاں کوئی آوارہ کُتا نظر آ جاتا ہم اُسےپتھر مارنے لگتے۔۔۔۔گو مجھے شروع سے کسی بھی جاندار کو تکلیف دینا پسند نہیں رہا لیکن ایک دن دوستوں کے ساتھ میں نے بھی ایک گزرتے کتے کو پتھر مار دیا۔۔۔کتے نے تکلیف کی حالت میں ہماری جانب دیکھا اور چائون چائون کرتے بھاگ گیا۔۔۔ واقعے کے کچھ دن ہی گزرے ہونگے کے میں دوست کے گھر سے واپس آ رہا تھا اور مجھے جلدی تھی کہ اگر مغرب کی آذان شروع ہو گئی تو امی سے مار نہ پر جائے ۔۔۔ اسی جلدی میں شارٹ کٹ مار رہا تھا کہ ۔۔۔ اُسی کتے سے سامنا ہو گیا۔۔۔ کُتے نے مجھے اکیلا دیکھا ۔۔۔ تو میری طرف غراتے ہوئے بھاگنے لگا۔۔۔ میری عمر کوئی چھ سات سال ہو گی۔۔۔ میں نے اُسے سامنے آتے دیکھ کر چیخنا اور بھاگنا شروع کر دیا۔۔۔ اتنے میں میں پھسلا اور زمین پر گر گیا۔۔۔ یہی غراتا ہوا کتا میرے پاس آیا ، میری طرف منہ کر کے بھونکا اور پھر بغیر کاٹے یا چھوئے دوسری جانب نکل گیا۔۔۔۔ وہ مجھے کاٹ سکتا تھا۔۔۔ لیکن اُس نے نہیں کا ٹا صرف میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالین اور چل پڑا۔۔۔۔ آج جب میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے اُس نے مجھے کہا ہو کہ " تو تو انسان ہے ، پھر بلا وجہ کیوں ایسی حرکتین کرتا ہے جو تجھے زیب نہیں دیتی۔۔۔ میں تو جانور ہوں اور تو افضل مخلوق ۔۔۔۔ کیا تو بھی اپنے مقام سے گرے گا اور کسی کی تکلیف سے لطف حاصل کرے گا؟؟؟ یقیناً وہ جانور مجھے لاشعوری سبق سیکھا کر گیا ۔۔۔ جانور بھی دوسرے جانور کو بلا وجہ تکلیف نہیں دیتے۔۔۔ یہ صرف حضرت انسان کی ہی خصلت ہے جو جانور تو جانور خود اپنے ہم جنس انسان کی تکلیف پر خوش ہوتا ہے ۔۔۔ اور احسن تقریم کے مقام سے گر کر اسفل السافلین بن بیٹھتا ہے.



********
کبھی سوچو فرعون جب محل سے نکلتا ہو گا کتنی خلقت ادب سے سجدہ ریز ہو جاتی ہو گی کتنے غلام کتنے فوجی ، کتنے شرطے اُس کے ارد گرد ہوتے ہونگے کیا پروٹوکال کیا جاہ و جلال ہوتا ہو گا مگر آج اُس کی لاش ، اُس کی ممی مقام عبرت بنی پڑی ہے اُس کی طاقت ، اُس کا جلال اور دولت اُسے اُس شرمندگی ، اُس ذلت سے بچانے سے ناکام ہے جس نے فرعون کو خدائی کے گمان میں مبتلا کیا۔۔۔ دنیا کی تاریخ ایسے مسخروں سے بھری پڑی ہے جو طاقت اور اقتدار کو اپنا استحقاق سمجھ بیٹھے ۔۔ جنہوں نے خلقت کو حقیر جانا اور خود کو اعلٰی آج کوئی اُن کا نام لیوا نہیں جو نام لیتا بھی ہے تو لعنت بھیج کر یا عبرت دلانے کے لئے اُن کا نام لیتا ہے۔۔ اے بنی آدم ہمارا فخر ہماری عزت عاجزی میں ہے ہم مٹی سے بنے جو پاءون تلے رہتی ہے ۔۔ لیکن پھر بھی اتنی معتبر ہے کہ کوئی پھل ، کوئی پھول اسی کے سینے کے بغیر نہیں نکل سکتا۔۔۔ اگر تو تم عزت کے طلبگار ہو اور تاریخ میں نام لکھوانا چہتے ہو تو مٹی جیسا ظرف پیدا کرو عاجزی اختیار کرو ، بندہ پروری سیکھو۔۔۔ اُس مٹی کی طرح جو سب کچھ اپنے سینے میں جزب کر لیتی ہے، حیات بخش پانی بھی ، اور لوگوں کا گند بلا بھی۔۔ لیکن واپس حیات ہی لوٹاتی ہے۔۔۔ پھول ، پھل اور سبزہ ، کھانے پینے کی اجناس اور زمین پر پھرنے والوں کی خوراک ، سر ڈھانپنے کے لئے لکڑی ، تن ڈھاپنے کے لئے لباس اے بنی آدم انسان وہی جو خلقت پر محربان ، جو مخلوک کا خیر خواہ ، جن نے اپنے عناصر ترکیب سے سیکھا اور خالق کی حکمت کو سمجھا۔۔۔ نا بچا بچا کہ تو رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

Friday, July 5, 2019

خود کلامی

Image result for darvesh



دنیاوی علوم میں سب سے اہم علم تاریخ کا علم ہے۔۔ جو قومین تاریخ کے علم کو غیر ضروری سمجھنے لگتی ہیں ۔۔وہ اپنی تباہی کا سامان اکھٹا کرنے لگتی ہیں کیونکہ اُن سے تاریخ سے لا علمی وہ غلطیان کرواتی ہے جو اُن سے پہلے کی کئی قومیں سرزد کر چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔
ادب شاعری اور فلسفہ وغیرہ میں دلچسپی جہاں قوم کے شعور کو بڑھاتی ہیں اور تہذیب کو ترقی دیتی ہیں وہیں یہ ذہنی عیاشی ، قومی کمزوری کا سبب بنتی ہیں۔۔۔ ہسپانیہ سے لے کر ،خلافت عباسیہ اور عثمانیہ اسی ذہنی عیاشی کا شکار ہو کر ذوال پزیر ہوئیں۔۔۔ جس وقت یورپ تاریخی غلطیوں کو دور کرتے ہوئے سائینس اور فوجی ترقی کے مراحل سے گزر رہا تھا ۔۔ہم مسلمان ذہنی عیاشی کا شکار شعر و ادب میں پڑے اپنی مردانہ صفات کھو رہے تھے۔۔۔ کاش ہم نے گزری کل سے کچھ سیکھا ہوتا ۔۔۔ یا آج ہم سیکھ رہے ہوتے۔۔۔

خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں




 **********************                             

آج کے صوفی کی سب سے بڑی غلطی خود شناسی کی راہ میں چلتے چلتے دنیا و مافیاسے بے ہوشی ہے۔۔ خود شناسی اگر رب کی پہچان نا کروائے اور رب کی پہچان کے باوجود انسان رب کی منشا نہ سمجھ سکے۔۔۔ اور عشق کے نام پر کیفیات کے نشے میں کھویا رہے تو کیا وہ کچھ بھی پا سکا؟۔۔ اور پھر حضور ﷺ کے حکم کے مطابق دنیا اور مافیا میں توازن قائم نا کر سکے تو کیا اسے رحمت کہیں گے؟ خود شناسی ترک دنیا نہیں بلکہ خلافت ارضی کے میعار سمجھاتی ہے ۔۔ اور پھر اُس مرد درویش کا فرض بن جاتا ہے کہ اپنی ڈیوٹی سنبھالے جس کے لئے اُس کے ابا حضرت آدم کو دنیا میں بھیجا گیا۔۔۔۔

ہو حلقہ یاران تو بریشن کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

دنیا سے بے ہوشی سے بھی بُری کیفیت یہ ہے کہ انسان مسئلے پر تو کچھ ہو مگر کاروبار دنیا میں مسئلے پر سیکھے آداب بھلا دے۔۔ یعنی وہ منافقت کی کیفیت کا شکار ہو کر دو رنگا ہو جائے۔۔۔ دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہی مسلمان کا اولین فرض ہے۔۔۔ جو اس توازن کو قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ کامیاب اور جو یہ توازن قائم نا کر سکا وہ ہی در اصل ناکام


                              **********************                                                    

صاحبان عشق ہی با اُمید اور سخی ہوتے ہیں۔۔ ان کی صحبت سے کوئی کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔۔ نا امیدی کی بڑی وجہ عشق سے دوری یعنی محبوب سے محبت پر شک اور گمان بد کی موجودگی ہے۔۔۔ گمان بد بھی وہ جو خود اپنی سچائی کو متنازع ہنادے۔۔۔
حق کی بات تو یہ ہے کہ اگر مجازی عشق بھی ہوس کی جگہ واقعی عشق ہو تو اس عشق  کا اختتام بھی عشق حقیقی ہے۔۔۔ کیونکہ  عشق کا مفہوم ہی اپنی ذات کو محبوب کی ذات میں فنا کر دینا ہے۔۔۔ 
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر
عشق  اُن مردان حُر کا شیوہ ہے جن کے نذدیک اُن کی ذات کی فنا اور محبوب کا قائم ہو جانا ہی در اصل کامیابی ہے۔۔۔ جس گُل کو سونگھتا ہوں بو تیری ہے۔۔۔عاشقین حق پُر امید ، ایثار و قربانی کا پیکر ، صفات و خیالات میں شُدہ   ، محبوب کی رضام میں  سب کچھ لُٹانے کو تیار ، یعنی سخی و فیاض ہوتے ہیں  اور یہ لوگ اُس آئینے کی طرح ہوتے ہیں جس میں خالق کی حسن تخلیق برملا نظر آتی ہے۔۔۔عشق کی راہ میں سب سے بڑا امتحان، سب سے بڑی آزمائش  شک کا پیدا ہونا ہے۔۔۔ شیطان کا سب خطرناک ہتھیار مخلوق کے قلوب میں شک کا بیج بیجنا ہے۔۔۔ پس جو مسافر عشق ہو اُس کی کامیابی صرف اور صرف  منزل پر نظر اور راستے کے مناظر سے بے ہوشی میں  ہے۔۔ ورنہ محبت کبھی عشق نہیں بنے گی اور ایک ایسی انا تشکیل پائے گی جو راستوں میں ایسا بھٹکائے گی کہ منزل ہر قدم دور ہوتی جائے گی۔۔۔

پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی