Chronicles of Abu Abdul Samad
As I see the world
Thursday, August 24, 2023
قصہ عروج و زوال ، میں نے کیا دیکھا ،کیا سیکھا؟
Thursday, July 6, 2023
The Era of Neo Ignorance
We live in an era of neo-ignorance. We are surrounded by information, but we are more ignorant than ever before. We have so much sight but alas have too little vision to see what have we become. We worship idols of our selfish interests, and our actions do not match our words. Our thinking patterns match those of the jahiliyyah, the age of ignorance before Islam. We unite against good, knowing we are wrong, but the status quo suits us. Greed has taken our sense of pride, honor, and right. We do good not for the sake of pleasing Allah, but to show off, to save tax, and all the other hypocritical reasons one can find. Alas, we call ourselves Muslims, but Islam is practiced only when it suits us, and we become jahils when our interests suit jahiliat.
This is the era of neo-ignorance. We are a generation
of people who have been raised on the internet, where information is instantly
available at our fingertips. But with this abundance of information comes a new
problem: we don't know what to believe. We are constantly bombarded with
conflicting news stories, opinions, and facts, and it can be hard to know what
is true and what is not.
In the Era of Neo Ignorance, we are also more likely to
believe things that confirm our existing beliefs. This is called confirmation
bias, and it is a powerful cognitive bias that can lead us to make poor
decisions. For example, if we are already convinced that climate change is a
hoax, we are more likely to believe news stories that support that belief, and
we are more likely to dismiss news stories that contradict it.
Confirmation bias can also lead us to surround
ourselves with people who share our beliefs and to avoid people who have
different beliefs. This can create an echo chamber, where we are only exposed
to information that supports our existing views. This can make it very
difficult to change our minds, even when presented with new evidence.
The Era of Neo Ignorance is a challenge for everyone,
but it is especially challenging for Muslims. As Muslims, we are commanded to
seek knowledge and to understand the world around us. But in the Era of Neo
Ignorance, it can be difficult to know where to start. There is so much
information out there, and so much of it is conflicting.
How can we navigate the Era of Neo Ignorance and still
remain true to our Islamic values?
· Be critical of the information you consume. Just because something is on the
internet doesn't mean it's true.
· Be open to different viewpoints. Even if you don't agree with someone,
it's important to listen to their perspective.
· Be willing to change your mind. If you're presented with new evidence, be
willing to reconsider your beliefs.
· Surround yourself with people who challenge you intellectually. This will
help you to think critically and to avoid falling into echo chambers.
· Be your self and be proud of what you are. You have a rich history,
understand your paradigms which will help you to come out of paradoxes you have
entrapped your self.
· Understand Quran and Hadith and let your knowledge and Love for your lord
and his Prophet guide you in right direction.
The Era of Neo Ignorance is a challenge, but it is also
an opportunity. We can use this time to learn and to grow, and to become better
Muslims. We can use this time to build bridges between different cultures and
to promote understanding and tolerance. We can use this time to make a
difference in the world.
Let us not be a generation of neo jahils. Let us be a
generation of Muslims who are guided by love , knowledge, wisdom, and
compassion. Let us be a generation of Muslims who make a difference in the
world.
Friday, June 3, 2022
زندگی اپنی ہے طلسمِ ہَوس سراپا؟؟؟
بہت
زمانے پہلے کی بات ہے۔ غالباً یہ بنی
اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا۔۔۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور
لگا رہا تھا۔۔تاکہ توحید کی جگہ بت پرستی خلقت کا شعار بن جائے۔۔۔ فلسطین کے ایک قصبے میں ایک قدیم درخت تھا۔۔۔ شیطان
کی کوششوں سے لوگوں میں پہلے توہم پرستی عام ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ اس درخت
کی کچھ لوگوں نے پوجا شروع کر دی۔۔۔
اسی
قصبے میں ایک توحید پرست شخص رہتا تھا۔۔ جس کا دل لوگوں کے درخت سے متعلق عقائد
بہت دکھتا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور شریعت موسوی پر
عمل کرین۔۔
ایک
دن اس نے سوچا کہ وہ۔۔ اس درخت کو ہی کاٹ
دے گا۔۔تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو درخت اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا
لوگوں کی کیا مرادیں پوری کرے گا۔۔۔
اسی
سوچ میں اس نے کلہاڑی اٹھائی اور درخت کا ٹنے نکل پڑا
درخت
کے قریب پہنچا تو اسے عزازیل (ابلیس) ایک باریش بزرگ کی صورت میں نظر آیا۔۔۔ سلام دعا کہ بعد عزازئیل نے پوچھا کہ وہ کلہاڑی کے ساتھ کیا کرنے آیا
ہے۔۔
اس
شخص نے اپنی نیت اور عزم بیان کیا۔۔
عزازئیل
بولا: تمھاری نیت بہت اچھی ہے۔۔ لیکن درخت
بھی جاندار ہوتے ہیں۔۔ اگر لوگ کم علمی میں اس کی پوجا کر رہے ہیں تو اس میں درخت
کا کیا قصور۔۔
وہ
شخص بولا: بے شک آپ درست کہتے ہیں۔۔ لیکن اس درخت کی وجہ
سے لوگ شریعت موسوی کو بھلا رہے ہیں اور بت پرستی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔ میں اس
درخت کو کاٹنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے
کٹنے سے خلقت گمراہی سے بچے گی۔۔ اور
معاشرے میں سراحیت کرتے توہم پرستی کے
جراثیم ختم ہو جائیں گے
عزازیل
بولا: بے شک یہ ایک اچھی سوچ ہے۔۔ مگر اس میں بے چارے درخت کا کیا قصور۔۔ دیکھو
کتنے پرندوں نے اس درخت پر گھونسلے بنا رکھے ہیں۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک مہینے کا
وقت مجھے دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری
بات ضرور سمجھ لیں گے۔۔۔ اس طرح ایک جاندار اور اس سے جڑے درجنوں پرندے بھی بچ جائیں
گے۔۔۔ اس ایک مہینے کے دوران تمھیں صبح کی عبادت کے بعد تکئیے کے نیچے سے 3سونے کے سکے بھی ضمانت کے طور پر روزانہ
ملیں گے۔۔ جو میری طرف سے ضمانت ہو گی۔۔ اگر ایک مہینے کے اختتام تک میں
لوگوں کو سمجھا نہ سکا تو جو تم چاہو وہ
کرنا۔۔ لیکن میری درخواست ہے کہ مہینے تک
مجھے کوشش کرنے کی مہلت ضرور دینا۔۔
اس
شخص نے سوچا چلو کہتا تو یہ بھی ٹھیک ہے۔۔
درخت میں جان تو ہوتی ہے۔۔دوسرا اس درخت پر پرندے بھی آباد ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر یہ
ضمانت بھی دے رہا ہے۔۔۔ اور مہینے تک صبر کرنے کا معاوضہ بھی بہت زیادہ دے رہا
ہے۔۔
وہ
شخص بولا: ٹھیک ہے حضرت آپ کے پاس ایک مہینہ ہے۔ ایک مہینے بعد میں آؤں گا۔۔
اگر لوگ پھر بھی اس درخت کی پوجا کرتے رہے تو خدا کی قسم میں یہ
درخت کاٹ دوں گا اور کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔
دوسرے
دن صبح کی عبادت کے بعد یہ شخص گھر واپس آیا
تو اس نے اپنے تکیے کے نیچے 3 سونے کے سکے
رکھے پائے۔۔ شخص مسکرایا اور یہ سکے جیب میں رکھ لئے۔۔ دوسرے دن، تیسرے
دن۔۔۔۔ ہر روز 3 سکے صبح کے وقت اسے مل جاتے۔۔۔ بندہ خوش تھا
کہ اس کی ضروریات بغیر ہاتھ ہلائے ہی پوری
ہو رہی ہیں۔۔
تیسویں
دن جب وہ واپس آیا تو تکئے کے نیچے کچھ نہیں
تھا۔۔۔ بندے کو بہت غصہ آیا۔۔ غصے کے ساتھ ہی ایک دم اس کا ایمان پھر جاگ گیا۔۔۔
اٹھا اور کلہاڑی تیز کرنے لگا۔۔ اور اونچی آواز میں قسمیں کھانے لگا۔۔۔ آج میں خدا
کی قسم اس درخت کو کاٹ کر ہی کچھ کھاؤں پیؤں گا۔۔۔
اسی
غصے میں وہ چلا درخت کاٹنے۔۔۔ درخت کے پاس
پہنچا تو سامنے عزازئیل کھڑا مسکرا رہا
تھا۔۔
یہ
آدمی چیخا: حضرت آگے سے ہٹ جائیں۔آج میں آپ کی کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔ میں آج یہ
درخت کاٹ کر ہی رہوں گا۔۔
عزازئیل
مسکراتے ہوئے سامنے سے ہٹ گیا۔۔
غصے
سے اس شخص نے کلہاڑی گمائی لیکن جیسے ہی
کلہاڑی درخت سے ٹکرائی تو بندہ کانپ اٹھا۔۔۔جیسے کلہاڑی لکڑی سے نہیں بلکہ لوہے
سے ٹکرائی ہو۔۔۔
عزازئیل اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔۔۔
یہ
شخص کئی گھنٹے کوشش کرتا رہا لیکن درخت جیسے فولاد کا بن گیا تھا۔۔۔
آخر
تھک کر یہ بندہ زمیں پر بیٹھ گیا۔
عزازیل سے مخاطب ہو
کر بولا: حضرت ماجرا کیا ہے؟
عزازیل
مسکراتے ہوئے بولا: اے بد بخت میں عزازیل ہوں، تمھارے اور تمھارے ابا آدم
علیہ سلام کا ازلی دشمن۔۔ تم جب انتیس دن پہلے آئے تھے اس وقت تم ایمان کی
جس کیفیت میں تھے۔۔ مجھے ڈر ہوا کہ تم یقیناً درخت کاٹ دو گے اور میرا انسانوں کو بہکانے کا یہ
وار ضائع جائے گا۔۔۔ سو میں نے سوچا کہ
تمھاری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاؤں۔۔ رحمدلی
کی بات کرتے ہوئے میں نے تمھارے فطری لالچ کو چنگاڑی دکھائی۔۔ تم نے
مصلحت کے نام پر میری پیشکش قبول کر لی۔۔
پھر میں نے انتیس دن تمھیں حرام کھلایا۔۔۔ جب حرام کا مال تم میں رچ بس گیا تو تم
میرے لئے خطرہ نہیں رہے۔۔۔ اب تم جو مرضی کر لو تم اس درخت کو کاٹ نہیں سکو
گے۔۔ اور لوگ اس کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔۔
دوستو
معاشرے
سماجی معاہدے کی وجہ سے وجود میں
آتے ہیں۔۔جہاں ایک طرف تو فرد کے حقوق ہوتے ہیں تو دوسری طرف فرائض۔۔ ان حقوق و فرائض کی ادائیگی
ہی پیمانہ وہ ہے جس سے معاشرتی
طاقت کا پتہ چلتا ہے۔۔ معاشرے کمزور
پڑنا تب شروع ہوتے ہیں جب افراد
فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگیں۔۔ اگر عوام کو اپنے حقوق اور فرائض کا
ادراق ہو۔۔اور وہ اپنے فرائض ادا کر رہے ہوں تو معاشرہ مضبوط رہتا ہے۔۔ لیکن جیسے ہی فرائض میں کوتاہی
شروع ہوئی۔۔جس کی وجہ کوئی بھی ہو۔۔ مسائل در مسائل آنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔
مملکت
خدا داد پاکستان۔۔۔ دنیا کی خوش نصیب ترین
ریاست ہے۔۔۔ الحمدوللہ۔۔۔ یہاں میدان بھی ہیں، صحرا بھی ہیں، برف پوش پہاڑ بھی۔سر
سبز وادیاں بھی، دریا بھی ہیں، ساحل سمندر
بھی۔۔ اس کی 22کڑور آبادی اسے افرادی قوت کے معاملے میں ایک طاقتور ملک بناتی
ہے۔۔۔ اللہ نے اس عظیم الشان ریاست کو طرح طرح کی معدنیات سے مالا مال کیا ہوا
ہے۔۔۔ اس کی جغرافیائی محل وقوع اسے خطے کے تمام ممالک میں سب سے ممتاز کرتا ہے۔۔۔ یہ
وہ پل ہے جو وسطی ایشیاء ، برصغیر اور
مشرق وسطٰی کو آپس میں ملاتا ہے۔۔
اللہ
رب العزت کی عطا کردہ تمام نعمتوں کی
موجودگی میں بھی یہ عظیم ملک، بے برکتی اور انتشار کا شکار ہے۔۔۔ جس کی وجہ معاشرے
کے ہر سطح پر موجود بے عدلی ہے۔۔۔ اس بے عدلی کی وجہ۔۔۔ ہر سطح پر
افراد کی طرف سے کی جانے والی۔۔۔ اپنے اپنے فرائض میں کوتاہی ہے۔۔ ہم حق مانگتے ہیں۔۔۔
لیکن فرائض ادا کرنا نہیں چاہتے۔۔۔ الیکشن
ہوتے ہیں۔۔ ہم جنھیں گالیاں دیتے ہیں۔۔پھر انہی کو برادری، عقیدت۔۔۔صوبائیت اور زبان۔۔۔ کی بنیاد پر وؤٹ
بھی ڈال دیتے ہیں۔۔۔ تھانے،کچہری اور
چھوٹے چھوٹے کام کروانے کے لئے نا اہل اور بد قماش لوگوں کو اپنا راہنما بنا لیتے
ہیں۔۔بات انقلابوں کی کرتے ہیں، لیکن خود اپنی ذات اور خاندان میں انقلاب نہیں لا
پاتے۔۔۔ بات نظریات کی کرتے ہیں لیکن تقلید
غیروں کی کرتے ہیں۔۔۔ دوسروں کے طریقوں
کو جانتے ہیں، اپنی تحزیب کا ادراق نہیں رکھتے۔۔۔ غیر کی زبان بول کر فخر کرتے ہیں
اپنی زبان سے نا واقف رہتے ہیں۔۔۔
افسوس! ہم اپنے
پرکھوں کو بھول چکے ہیں اور غیروں پر فخر کرنے لگے ہیں۔۔ برائی کس قوم میں نہیں۔۔مضبوط
قومیں اپنے نقائص چھپاتی ہیں اور اپنی
اچھائیوں کو مشہور کر کے ان پر فخر کرتی ہیں۔۔ لیکن ہم وہ قوم ہیں جو اپنے نقائص
کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔۔۔ اور اس غلیظ حرکت سے خود کو دانشور ظاہر کرتے ہیں۔۔ جبکہ
معاشرے میں تبدیلی کے لئے عملی اعتبار سے کچھ نہیں کرتے۔۔۔
آج اجتماعی منافقت کی وجہ سے نہ آج ہم مور ہیں اور
نا ہی کوئے۔۔۔ اشرافیہ کی محفل میں بیٹھو اور عوام کی محفل میں بیٹھو تو لگتا ہے یہ
دو مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں۔۔۔ لیکن
دونوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے بے
حسی۔۔۔ یون لگتا ہےہم سب اس ملک میں ایڈہاک
بنیاد پر رہ رہے ہیں۔۔۔ وفا نظریے اور
اُس کی بدولت حاصل کی گئی اس دھرتی
سے نہیں بلکہ اپنے مفادات اور اپنے نفس کی خواہشات سے ہے۔۔۔ میں تر جائون پھر چاہے
میرا بھائی جہنم میں جائے۔۔۔۔عزازیل نے غیر
کی شراب پلا کر ایسا مست کر دیا ہے کہ خود
تباہی کی جانب جاتا اپنا وجود ہمیں نظر نہیں آ رہا۔۔
زمانہ دیکھے گا جب مرے
دِل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا
مری
خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا
جو
موجِ دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری
گُہر
یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ
ہو طبیعت ہی جن کی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہُوا
نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا
کوئی
دِل ایسا نظر نہ آیا، نہ جس میں خوابیدہ ہو تمّنا
الہٰی
تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا
کُھلا
یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسمِ ہَوس سراپا
جسے
سمجھتے تھے جسمِ خاکی، غُبار تھا کُوئے آرزو کا
اقبال)
Thursday, July 11, 2019
عاجزی ،انسان اور حیوان
Friday, July 5, 2019
خود کلامی
Tuesday, March 25, 2014
ذہنی غلامی ، قومی کرادر اورقومی طاقت
دوسری طرف میری بیٹی جو پلے گروپ کا انٹر ویو اس طرح دیتی ہے کہ چار پانچ بار انٹرویو لینے والی اس کے اعتماد اور انٹیلی جنس کی تعریف کرتے ہوئے اسے بہت انٹیلی جینٹ بچی کہتی ہے ۔۔۔ اس سکول میں رہ جاتی ہے۔۔۔ میرے جانے پر بتایا جات ہے کہ اس کے 78 فیصد مارکس تھے جبکہ میرٹ 85 فیصد تھا۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ کا نمبر دینے کا میعار کیا ہے تو خاموشی۔۔۔ نمبر جو ٹیچر نے دیئے وہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہوں تو انکار کر دیا جاتا ہے۔۔۔ پتہ چلتا ہے کہ کسی کی سفارش سے کوئی آگے آ گیا اور یہ پیچھے کر دی گئی۔۔۔ ایک جاننے والی ٹیچر کہتی ہے کہ آپ کو سفارش کرانی چاہئے تھی کیونکہ ڈیڈھ سو بچے رکھنے تھے اور چار سو سے زیادہ نے اپلائی کیا۔۔۔
آج میں ،با حیثیت میڈیا پرسن اور سوشل سائینٹسٹ پاکستان کو لاحق بیماریوں کا جائیزہ لیتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کے مں حیثیت قوم ہم بھی بنی اسرئیل کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔۔۔ اللہ رب العزت کی لاتعداد رحمتوں کے باوجود ہم کمزور ہیں ۔۔ جس کی وجہ اب تک ہماری اشرافیہ اور عوام کو لاحق انگریز کی ذہنی غلامی ہے۔۔ تھیوری آف سٹریٹیجک کلچر پر کئے پروفیسر حسن عسکری رضوی اور برگیڈئیر فیروز حسن خان کے کام کے مطابق پاکستانی اشرفیہ ایک طرف تو خود کو مسلم رویات کا امیں سمجھتی ہے دوسری طرف برطانوی ٹریڈیشنز پر فخر بھی کرتی ہے اور یورپ کی تقلید کو ترقی کا راستہ سمجھتی ہے۔۔۔