Friday, February 14, 2014

سرمایہ دار ، میڈیا اور ویلنٹائین ڈے



دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے
(سورة البقرة آیت ۲۵۶)
نوجوانی کا دور اور جوانی بھی وہ جس میں غفلت عروج پر ہو
کیا دور ہوتا ہے۔۔۔ بندہ ہر فکر سے آزاد ۔۔۔ اپنی الگ دنیا میں مگن۔۔۔ ہر لمحے کو جینے والا
کل سے بے خبر ۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ ذمہ داریاں آنے لگتی ہیں۔۔ سمجھ آنے لگتی ہے
وہ زندگی جو ایک سہانہ خواب لگتی ہے آہستہ آہستہ جہدمسلسل بن جاتی ہے۔۔ پھر پتہ چلتا ہے خواب کا زمانہ سہانہ تو ضرور تھا لیکن حقیقی زندگی بہت تلخ اور محنت کا تقاضہ کرتی ہے۔۔۔
میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔۔۔ کالج کا زمانہ غلط فہمیوں میں گزارا۔۔۔ ہر سال عشق کئے ۔۔۔ جو سال کے اختتام پر آ نسوئوں کی صورت میں ختم ہوئے۔۔۔
ہیرو بننے کے چکر میں پہلے ایف ایس سی  پارٹ ون میں ‘‘سپلی’’ آئی ۔۔۔ پھر ایف ایس سی پارٹ ٹو میں بھی ‘‘سپلی’’ لی۔۔۔
دوست بھی ایسے ہی تھے۔۔۔ جو خوابوں میں رہتے اور رکھتے۔۔۔
ایف ایس سی کے زمانے میں سارا کالج دوست تھا۔۔۔  جوکرناچاہتا۔۔۔کر گزرتا۔۔۔ والد صاحب نے موٹر سائیکل لے کر دی۔۔۔توعیاشی کی انتہا اور بے فکری کی نئی زندگی شروع ہی ہو گئی۔۔۔ سارا سارا دن کلاس رومز سے باہر۔۔۔ یاری دوستی اور آوارہ گردی میں وقت کا ضیاع معمول ۔۔۔
اس دور میں شاعری کی۔۔ تقریرین جیتیں ۔۔ گانے کے مقابلے جیتے۔۔۔ ہاراتوتعلیم میں مار کھائی ۔۔۔ فرسٹ ائیر کی ‘‘سپلی’’ ۔۔سیکنڈ ائیر کی ‘‘سپلی’’ نہ روک سکی۔۔۔ بالآخر ایک سال ضائع کیا۔۔۔
سال اول میں جس سے عشق کیا۔۔۔ اس نے تعلیم اور زندگی میں ‘‘نان سیریس’’ ہونے کی وجہ سے  ٹھکرادیا۔۔۔ سال دوم میں بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔  کوئی کیونکر کسی غیر سنجیدہ انسان کے لئے سوچے اور مستقبل کے خواب آنکھوں میں پروئے۔۔۔ ویسے بھی  انسان  خاص طور پر لڑکے، نو جوانی میں محبت اورہوس کے درمیان  کم ہی فرق کر پاتے ہیں۔۔ جبکہ لڑکیاں  جلد نظروں اور سماج کے ہیر پھیر میں دھیان کرنےکے قابل ہو جاتی ہیں۔۔۔
سال ضائع کرنے کے بعد فوج میں ٹرائی کیا۔۔۔ دو مرتبہ آئی ایس ایس بی سے ‘‘ریجیکٹ’’ ہوا۔۔۔ آرمی کے علاوہ کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ اس وجہ سے لوگوں کے کہنے پر بی ایس سی میں داخلہ لے لیا ۔۔۔ ایف ایس سی چونکہ پری میڈیکل تھی۔۔۔ جبکہ بی ایس سی میں میتھس ،سٹیٹس اور اکنامکس رکھا تھا۔۔۔اس وجہ سے دو سال یہاں بھی ضائع کئے اور  پھر پرائیویٹ بی اے کیا۔۔۔

جب ہوش آیا تو دوستیاں یک دم ختم ہو گئیں۔۔۔  آج میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک دو دوستوں کے علاوہ میرا کوئی دوست نہیں۔۔۔ وہ سینکروں دوست یک دم پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔۔۔ جن کے لئے میں نے خود کو اور اپنے گھر والوں کو خراب کیا۔۔۔
ایف ایس سی  کا ہیرو آج اپنے کو نہایت حقیر انسان محسوس کرتا ہے۔۔۔ نوجوانی کی حرکتوں کی یاد ۔۔ شرمندہ کر دیتی ہے۔۔اتنی مار پر چکی ہے کہ آج کاابو عبد الصمد  کل کے ابو عبد الصمد سے ہر لحاظ سے سو فیصد مختلف  ہے۔۔۔ 
اب سمجھ آ رہی ہے کہ زندگی کا حسن ۔۔زندگی کی خوبصورتی ۔۔انسانیت کے درمیان ۔۔۔رشتوں کے درمیان باہمی احترام اور رکھ رکھائو سے ہے۔۔۔ معاشرے ایک معاشرتی معاہدے کے تحت وجود میں آتے ہیں۔۔۔ جہاں ہر کوئی حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی رکھتا ہے۔۔۔
اللہ کی رحمت سے اب سمجھ آئی ہے کہ
گناہ کیا ہے؟
نیکی کیا ہے؟
گناہ کم ظرفی ہے اور نیکی اعلٰیٰ ظرفی
ظلم کیا ہے؟
چیزوں کا اپنے مقام پر نہ ہونا ظلم ہے
ماں ماں ہے
اور باپ باپ
بھائی بھائی ہے
 بہن بہن
اور بیٹی بیٹی ہے
اسی طرح بیوی بیوی ہے
سب کا اپنا اپنا مقام ہے
سو ! اگر ان سب کا مقام ان کو نہ دیا جائے تو یہ کم ظرفی ہے۔
اور گناہ گار ظالم اور کم ظرف ہوتا ہے
زندگی کی خوبصورتی توازن میں ہے
مختلف رشتوں کے درمیان توازن میں۔

توازن احترام سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ من مانی اور نفس پرستی سے۔۔۔
نفس پرست رشتوں کی حرمت پامال کرتا ہے۔۔۔دنیا جائے عمل ہے۔۔۔ ہم جو کرتے ہیں اس کا پھل کا ٹتے ہیں۔۔۔


سا ئنس کی ترقی نے جہاں انسان کے لئے بہت سی سہولیات پیدا کی ہیں۔۔۔وہاں نظریات  اور اخلاقیات میں بھی بدلائو لائی ہے۔۔۔
سائنس حواس خمسہ میں آنے والی چیزوں کو مانتی ہے۔۔۔ جو چیزیں ان حواس کی پہنچ سے دور ہوں ان کا انکار کر دیتی ہے۔۔اسی ‘‘سائنٹفک اپروچ ’’ کا نتیجہ ‘‘ڈارون ازم ’’ہے۔۔۔ جسے آسان لفظوں میں ‘‘طاقتور کی بقا کا نظریہ بھی کہا جا سکتا ہے’’۔۔۔حالا نکہ سائنس  یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ وہ سب کچھ جان چکی ہے ۔۔۔ لیکن جو نہیں جانتی اس پر سوال ضرور اٹھاتی ہے ۔۔۔
 گزشتہ  کچھ صدیوں کی سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ مملک سے دنیا کو  سرمایہ دارانہ نظام  ملا ہے۔۔ سائنس کی طرح یہ معاشی نظام بی  بھی انسانی ذہنی  ارتکا  کا حاصل ہے۔۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد بھی  وہی  ڈارون ازم ہے ۔۔۔یعنی  طاقتور کی بقا۔۔۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام  کا پھل  مادہ پرستی  ہے۔۔۔جس کی انتہا  لذت پرستی ہے۔۔ سرمایہ دارانہ نظام   ہمیں سیاسی طور پر جمہوری نظام دیتا  ہے۔۔اس میں بھی ڈارون ازم کا نظریہ ہی کار فرما نظر آتا ہے۔۔۔
 سرمایہ دارانہ نظام   کے مطابق  تجارت اور معیشت میں حکومت کا کنٹرول نہیں ہونا چاہئے۔۔۔ ریاستی حکومت کا کام صرف لاءاینڈ آرڈر اور سرمایہ دار کے مفاد کا تحفظ ہے۔۔۔ مارکیٹ فورسسز  اپنے مسائل خود حل کرتی ہیں۔۔۔ سرمایہ دارنہ نظام میں سیاسی حکومت بھی سرمایا دار  کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے۔۔ سرمایہ دار ۔۔۔یا جس کے پاس سرمایہ یا دولت ہو۔۔۔ وہ اخلاقیات ، طاقت  اور سیاست کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا ہے۔۔۔
اسی لئے  ایک زمانے میں مانی جانے والی اخلاقی اقدار  ۔۔۔ کچھ عرصے بعد بدل جاتی ہیں۔۔۔ جیسے انیس سو میں خود امریکہ میں اگر  کوئی عورت ٹخنے سے اوپر تک سکرٹ پہنتی تو ۔۔ بے حیا خیال کی جاتی۔۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کا  پیمانہ بدلتا گیا ۔۔اور آج جہان پر آ گیا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔۔۔
سرمایا دارانہ نظام   آج مختلف لیولز پر دنیا کوکنٹرول کر رہا ہے۔۔ ایک عالمی سرمایا دار ہے ۔۔جو جنگیں کرواتا ہے۔۔ ضرورت کے مطابق نظریات کو فروغ دیتا ہے اور پھر انہی نظریات کو ۔۔۔مطلب  نکلے کے بعد  ۔۔۔ غیر انسانی قرار دے کر دنیا کو ان کے خاتمے کی طرف لگا دیتا ہے۔۔۔
پھر علاقائی سرمایا دار ہے۔۔ جو اپنے خطے میں عالمی سرمایا دار کے مفادات بڑھاتا ہے۔۔ اور اس عمل سے اپنے سرمائے میں اضافہ کرتا ہے۔۔۔۔۔
سرمایا دارانہ نظام انسانیت کے نام پر انسانیت کو ختم  کرنے میں لگا رہتا ہے۔۔۔ اگر  پچھلے بیس سال کو ہی دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان دو دہائیوں  میں لڑی گئی جنگوں میں۔۔۔ وہی لوگ متحرک  نظر آئین گے جنہوں نے کروڑوں کو مروا کر  کھربوں کمائے اور اپنے معاشی مقاصد حاصل کئے۔۔۔
سرمایہ دارانہ نظام جہان انسانیت کی بات کرتا ہے وہان قابل غور چیز ہے کہ اس نظام نے انسان کو بھی ایک جنس یا کموڈٹی بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔
آج ہر اشتہار میں آپ کو عورت نظر آئے گی۔۔۔  جو عجیب اور غریب ملبوسات اور خطرناک ادائوں سے  چیز کی تشہیر کرتی ہے۔۔۔ چینلزمیں وہ ڈرامے اور شوز  آپ کو مقبول نظر آئیں گے جن میں خوبصورت عورتیں ہوں۔۔۔
عورت کو بھی اس نظام نے ایسا بے وقوف بنا دیا ہے کہ عورت  موڈرن ازم کے نام پر کسی بھی حد سے گزرجاتی ہے۔۔۔عورت کا جتنا استحصال اس نظام نے کیا ہے ۔۔۔ اتنا عورت کا استحصال کبھی نہیں ہوا۔۔۔
محفلوں میں  یہ ماڈرن خواتیں  لذت پرستی کا سامان مہیا کرتی نظر آتی ہیں۔۔۔ جبکہ عورت کی عزت و احترام کی۔۔۔۔ جگہ اس سے لالچ۔۔۔۔ اور نئی تحزیب کے مقر میعار ہی  اس کی پاپولیریٹی کا سبب بنتے ہیں۔۔۔ اور ماڈرن عورت یہ جانتے ہوئے بھی ۔۔۔انجان بنی رہتی ہے۔۔
دوسری جانب اسلام عورت کو ایک عظیم رتبہ دیتا ہے۔۔
عورت ماں ہے ۔۔تو اس کے قدموں تلے جنت۔۔
بیٹی ہے تو والدین کے لئے جنت کی بشارت
بہن ہے تو بھائی کی غم خوار
بیوی ہے تو   نور نظراولاد کی جنت اس کےقدموں  تلے ، غم خوار اور  دوست۔۔امانت دار اور نگران
بہو ہے تو بیٹی کی ماند
ہر روپ میں قابل عزت اور قابل احترام۔۔۔
 لیکن اس انسان کو کیا کہیں ۔۔جسے اس کے رب نے ناشکرا قرار دیا۔۔
آگ کی چمک دیکھ کر اس کی طرف پروانون کی طرح ٹوٹتا ہے۔۔ مگر خیر کی ٹھنڈک کو  چھوڑ دیتا ہے۔۔  کماڈٹی یا جنس بننا پسند کرتا ہے لیکن اشرف المخلوقات بننے کو  برا سمجھتا ہے۔۔۔
آج  ویلنٹائین ڈے ہے۔۔ جس میں  کئی بہن بھائی اپنے مقامات سے  گرنے کو  ترجیح دیں گے۔۔۔ مادہ پرست ،لذت پرستی  میں خود کو رسوا کریں گے۔۔۔ محبت کے نام پر ہوس راج کرے گی۔۔۔خود کو غیرت مند جاننے والے ۔۔دوسرے کی غیرت کو  چیلنج کر کے۔۔اپنی غیرت  کا پول کھولیں گے۔۔۔
سرمایہ دار  ٹی وی چینلز پر اشتہارات اور پروگراموں کے ذریعے ۔۔ اس دن کی تشہیر کرے گا۔۔ عورت  اپنی مرضی سے لذت پرستی کا سامان بنے گی۔۔۔ ہوس کی منڈی میں دوسری اشیاء کے ساتھ ساتھ عورت بھی بکے گی۔۔۔
شیطان آج اپنی طاقت کے عروج پر ہے۔۔ اسے سرمایا دارانہ نظام کی صورت میں اسے سینکروں  اتحادی میسر آ گئے ہیں۔۔۔ لیکن دوستویاد رکھنا  تم اللہ کے بندے ہو۔۔۔اور یہ بھی ضرور یاد رکھنا کہ تمھارے ابا  حضرت آدم علیہ سلام پر اللہ رب العزت نے فرشتوں کے سامنے فخر کیا تھا۔۔۔
آج کہیں تم ادب و آداب گنوا نہ دینا۔۔۔معاشرے کا حسن توازن اور احترام میں ہے۔۔۔ اور یہ ہی چیز  معاشرے  کو طاقتور بناتی ہے۔۔۔ بس اس بات کو یاد رکھنا۔۔۔ اعلٰیٰ ظرف بننا ۔۔۔ اور کم ظرفی سے اللہ کی پناہ مانگنا۔۔۔
اللہ ہمیں عدل پر چلنے والا بنائے۔۔۔ آمین!

Tuesday, February 11, 2014

اخلاقی اقدار سے دوری بے حس بناتی ہے


A small amount of Courtesy can win a heart
A little slip of tongue can tear it apart
Learn from mistakes if you think you are smart
Mannerism is the best winning art

صبح عبد الصمد کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا کہ دیکھا پٹرول کی سوئی بالکل زمین پر لگی ہوئی ہے۔۔۔ سوچا بیٹے کو اسکول اتار کر پٹرول بھراتا ہوں ۔۔۔ عبد الصمد کو اسکول اتارا اور قریبی پٹرول پمپ کی طرف چل پڑا ۔۔۔ وہاں اچھا خاصا رش تھا۔۔۔ سوچا کافی وقت لگ جائے گا دوسرے پمپ چلتا ہوں۔۔۔ بیٹی، جو صبح بڑے بھائی کو چھوڑنے ساتھ جاتی ہے۔۔۔۔ اسے چپس لے کر دیئے اور چل پڑا دوسرے پمپ کی جانب۔۔۔۔
  یہاں رش بہت کم تھا۔۔۔۔ایک گاڑی آگے کھڑے تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک ساٹھ پنسٹھ سال کے حضرت بیٹھے تھے۔۔۔ جو شکل سے ریٹائیرڈ فوجی افسر لگ رہے تھے ۔۔۔۔ ان کی گاڑی کسی وجہ سے بند ہو گئی تھی اور وہ اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ میرے اندر کا جانور زور پر آیا ۔۔۔ اگلی گاڑی نکلی تو میں نے فورن سائیڈ سے گاڑی نکال کر ان سے آگے گاڑی کر لی۔۔ حالنکہ کسی بھی صورت میں یہ عمل غلط تھا۔۔۔ اتنی دیر میں ان کی گاڑی اسٹارٹ ہو گئی۔۔۔
انھوں نے گاڑی موڑی اور اسی پمپ کی دوسری سائیڈ پر میرے برابر آ کر کھڑے ہو گئے۔۔۔ اتنے میں ان کے آگے کھڑی گاڑی پٹرول بھرا کر نکل گئی اور ان کی باری آ گئی۔۔۔ حضرت نے فاتحانہ مسکرہٹ دیتے ہوئے میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کے میرا حق مار کر بھی تیری باری ابھی تک نہیں آئی۔۔۔ پٹرول بھروا کر نوٹ آپریٹر کو دیا جو چینج لینے اندر چلا گیا۔۔۔ یہ حضرت میری سائیڈ والی کھڑکی کی طرف آئے اور مسکراتے ہوئے شیشہ نیچے کرنے کو کہا۔۔
میں نے شیشہ نیچے کیا تو بولے ۔۔۔ یہ آپ کی بیٹی ہے ؟
میں نے کہا جی
بولے ۔۔ لگتا ہےچپس کھاتے کھاتے سو گئی ہے۔۔۔
اتنے میں کیشئیر سے پیسے لے کر آپریٹر آ گیا۔۔۔
مسکرائے اور خوش رہو کہہ کر چل دیئے۔۔۔
شرمندگی کا احساس جو ان کا پٹرول ٹینک کھولتے ہوئے مسکراہٹ  پر شروع ہو گیا تھا مزید بڑھ گیا۔۔۔
گھر آ کر جب والد صاحب کو مزاحاً بتائی تو ابو بولے
تم نے ایک غلط حرکت کی ۔۔۔۔ بوڑھا اور پڑھا لکھا  بندہ تھا اس لئے تو تکرار تک نوبت نہیں آئی لیکن جس فادرلی یا بزرگانہ طریقے سے وہ تمھیں سمجھا کر اور شرمندہ کر کے گیا ہے وہ بہت قابل تحسین ھے۔۔۔
میں ابھی تک شرمندگی محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ اگر میں انتظار کر لیتا تو بھی چند منٹون میں میری باری آ جاتی۔۔۔ تیزی بھی ماری اور شرمندگی بھی ہوئی۔۔۔

عقل مند انسان حالات و واقعات سے سیکھتا ہے۔۔۔ تجربات کی بھٹی فرد کو کندن بناتی ہے۔۔۔
انسان اور جانور کے درمیان سب سے بڑا فرق اخلاقیات ہے۔۔۔ اخلاقیات  ہی رشتون اور معاشرتی حدود و قیود کا تعین کرتی ہیں۔۔ فرائض اور حقوق واضع ہوتے ہیں ۔۔۔ اور انسان اسفل السافلین سے احسن تقویم بن  جاتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی اس پر ڈارون ازم کا بھوت سوار ہو جاتا ہے اور وہ جسمانی طاقت کی زور پر اپنی اخلاقی اور معاشرتی حدود و قیود پھلانگ کر اپنی طاقت منوانے اور دوسرے کا حق چھیننے کی جستجو کرنے لگ جاتا ہے اور یون چھوٹے لیول پر بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔۔۔ گو کہ معاشرہ ایسے بگاڑ کو روکنے اور بیج کنی کرنے کے لئے قوانین رکھتا ہے مگر یہ قوانین تمام کوششون کا راستہ نہیں روک سکتے کیونکہ  قوانین یا تو جرائم ۔۔۔ یعنی ان حقوق پر جو، ریاست اپنے شہریون کو گیرنٹی کرتی ہے ،پر نقب زنی پر لاگو ہوتے ہیں۔۔۔ یا پھر پرسنل یا فرد کے ذاتی حقوق کے قوانین ہیں جو دو افرد کے درمیان تناضع کی صورت میں اگر ایک فریق قانوں سے مدد کی درخواست کرے تو عمل میں آتے ہیں اور عدالت حق دلواتی ہے ۔۔۔ ان قوانین کو سول لاء کہا جاتا ہے۔۔۔ ان دو قوانین کے علاوہ اخلاقی قوانین بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ ان پر عدالت میں گو پکڑ نہیں ہوتی لیکن یہی بنیاد بنتے ہیں ہر قسم کے بگاڑ کے۔۔۔ جن معاشروں میں اخلاقی قوانین کی پاسداری نہیں کی جاتی وہ کمزور ہوتے جاتے ہیں اور بالاخر تباہ ہو جاتے ہیں۔۔۔
شاید پاکستانی معاشرے کی  زبون حالی کی وجہ بھی اخلاقی اقدار سے آہستہ آہستہ دوری ہے۔۔۔ یہ چیز ہمیں من حیثیت قوم بے حس بناتی جا رہی ہے جس کا مظاہرا ہمیں ہر دوسرے چوک پر نظر آتا ہے۔۔۔ طاقتور کمزور کے حقوق غصب کرتا ہے۔۔۔ لوگ تماشا دیکھتے ہیں ۔۔۔ اور تماشہ ختم ہونے پر مسکراتے چل دیتے ہیں اس پر المیہ یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں بلکہ طاقتور کا حق تصور کیا جاتا ہے۔۔۔