Tuesday, February 11, 2014

اخلاقی اقدار سے دوری بے حس بناتی ہے


A small amount of Courtesy can win a heart
A little slip of tongue can tear it apart
Learn from mistakes if you think you are smart
Mannerism is the best winning art

صبح عبد الصمد کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا کہ دیکھا پٹرول کی سوئی بالکل زمین پر لگی ہوئی ہے۔۔۔ سوچا بیٹے کو اسکول اتار کر پٹرول بھراتا ہوں ۔۔۔ عبد الصمد کو اسکول اتارا اور قریبی پٹرول پمپ کی طرف چل پڑا ۔۔۔ وہاں اچھا خاصا رش تھا۔۔۔ سوچا کافی وقت لگ جائے گا دوسرے پمپ چلتا ہوں۔۔۔ بیٹی، جو صبح بڑے بھائی کو چھوڑنے ساتھ جاتی ہے۔۔۔۔ اسے چپس لے کر دیئے اور چل پڑا دوسرے پمپ کی جانب۔۔۔۔
  یہاں رش بہت کم تھا۔۔۔۔ایک گاڑی آگے کھڑے تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک ساٹھ پنسٹھ سال کے حضرت بیٹھے تھے۔۔۔ جو شکل سے ریٹائیرڈ فوجی افسر لگ رہے تھے ۔۔۔۔ ان کی گاڑی کسی وجہ سے بند ہو گئی تھی اور وہ اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ میرے اندر کا جانور زور پر آیا ۔۔۔ اگلی گاڑی نکلی تو میں نے فورن سائیڈ سے گاڑی نکال کر ان سے آگے گاڑی کر لی۔۔ حالنکہ کسی بھی صورت میں یہ عمل غلط تھا۔۔۔ اتنی دیر میں ان کی گاڑی اسٹارٹ ہو گئی۔۔۔
انھوں نے گاڑی موڑی اور اسی پمپ کی دوسری سائیڈ پر میرے برابر آ کر کھڑے ہو گئے۔۔۔ اتنے میں ان کے آگے کھڑی گاڑی پٹرول بھرا کر نکل گئی اور ان کی باری آ گئی۔۔۔ حضرت نے فاتحانہ مسکرہٹ دیتے ہوئے میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کے میرا حق مار کر بھی تیری باری ابھی تک نہیں آئی۔۔۔ پٹرول بھروا کر نوٹ آپریٹر کو دیا جو چینج لینے اندر چلا گیا۔۔۔ یہ حضرت میری سائیڈ والی کھڑکی کی طرف آئے اور مسکراتے ہوئے شیشہ نیچے کرنے کو کہا۔۔
میں نے شیشہ نیچے کیا تو بولے ۔۔۔ یہ آپ کی بیٹی ہے ؟
میں نے کہا جی
بولے ۔۔ لگتا ہےچپس کھاتے کھاتے سو گئی ہے۔۔۔
اتنے میں کیشئیر سے پیسے لے کر آپریٹر آ گیا۔۔۔
مسکرائے اور خوش رہو کہہ کر چل دیئے۔۔۔
شرمندگی کا احساس جو ان کا پٹرول ٹینک کھولتے ہوئے مسکراہٹ  پر شروع ہو گیا تھا مزید بڑھ گیا۔۔۔
گھر آ کر جب والد صاحب کو مزاحاً بتائی تو ابو بولے
تم نے ایک غلط حرکت کی ۔۔۔۔ بوڑھا اور پڑھا لکھا  بندہ تھا اس لئے تو تکرار تک نوبت نہیں آئی لیکن جس فادرلی یا بزرگانہ طریقے سے وہ تمھیں سمجھا کر اور شرمندہ کر کے گیا ہے وہ بہت قابل تحسین ھے۔۔۔
میں ابھی تک شرمندگی محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ اگر میں انتظار کر لیتا تو بھی چند منٹون میں میری باری آ جاتی۔۔۔ تیزی بھی ماری اور شرمندگی بھی ہوئی۔۔۔

عقل مند انسان حالات و واقعات سے سیکھتا ہے۔۔۔ تجربات کی بھٹی فرد کو کندن بناتی ہے۔۔۔
انسان اور جانور کے درمیان سب سے بڑا فرق اخلاقیات ہے۔۔۔ اخلاقیات  ہی رشتون اور معاشرتی حدود و قیود کا تعین کرتی ہیں۔۔ فرائض اور حقوق واضع ہوتے ہیں ۔۔۔ اور انسان اسفل السافلین سے احسن تقویم بن  جاتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی اس پر ڈارون ازم کا بھوت سوار ہو جاتا ہے اور وہ جسمانی طاقت کی زور پر اپنی اخلاقی اور معاشرتی حدود و قیود پھلانگ کر اپنی طاقت منوانے اور دوسرے کا حق چھیننے کی جستجو کرنے لگ جاتا ہے اور یون چھوٹے لیول پر بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔۔۔ گو کہ معاشرہ ایسے بگاڑ کو روکنے اور بیج کنی کرنے کے لئے قوانین رکھتا ہے مگر یہ قوانین تمام کوششون کا راستہ نہیں روک سکتے کیونکہ  قوانین یا تو جرائم ۔۔۔ یعنی ان حقوق پر جو، ریاست اپنے شہریون کو گیرنٹی کرتی ہے ،پر نقب زنی پر لاگو ہوتے ہیں۔۔۔ یا پھر پرسنل یا فرد کے ذاتی حقوق کے قوانین ہیں جو دو افرد کے درمیان تناضع کی صورت میں اگر ایک فریق قانوں سے مدد کی درخواست کرے تو عمل میں آتے ہیں اور عدالت حق دلواتی ہے ۔۔۔ ان قوانین کو سول لاء کہا جاتا ہے۔۔۔ ان دو قوانین کے علاوہ اخلاقی قوانین بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ ان پر عدالت میں گو پکڑ نہیں ہوتی لیکن یہی بنیاد بنتے ہیں ہر قسم کے بگاڑ کے۔۔۔ جن معاشروں میں اخلاقی قوانین کی پاسداری نہیں کی جاتی وہ کمزور ہوتے جاتے ہیں اور بالاخر تباہ ہو جاتے ہیں۔۔۔
شاید پاکستانی معاشرے کی  زبون حالی کی وجہ بھی اخلاقی اقدار سے آہستہ آہستہ دوری ہے۔۔۔ یہ چیز ہمیں من حیثیت قوم بے حس بناتی جا رہی ہے جس کا مظاہرا ہمیں ہر دوسرے چوک پر نظر آتا ہے۔۔۔ طاقتور کمزور کے حقوق غصب کرتا ہے۔۔۔ لوگ تماشا دیکھتے ہیں ۔۔۔ اور تماشہ ختم ہونے پر مسکراتے چل دیتے ہیں اس پر المیہ یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں بلکہ طاقتور کا حق تصور کیا جاتا ہے۔۔۔


No comments:

Post a Comment