Tuesday, March 25, 2014

ذہنی غلامی ، قومی کرادر اورقومی طاقت



بنی اسرائیل کو فرعون سے آزادی مل چکی ہے ۔۔۔ اتمامِ حجت ہو چکی ہے ۔۔۔وہ اپنی آنکھوں سے جناب موسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں رونما ہونے والے معجزے دیکھ چکے ہیں ۔۔۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی آنکھوں سے فرعون کے لشکر کو اپنے پورے جاہ وجلال سے سمندر برد ہوتے دیکھا ہے۔۔فرعون اور اس کا لشکر ہی سمندر برد نہیں ہوا بلکہ گروہ ابلیس کے پیروکاروں کی جھوٹی خدائی ، اور ظلم و نسل پرستی کے غلیظ بت حق اور توحید  کے سامنے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔۔۔
 اللہ کی رحمت سے صدیوں کی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی ہے۔۔۔ اتنی بڑی نعمت ۔۔۔ اتنی بڑی رحمت اور بنی اسرئیل ، ہر سو شادمانی ہی شادمانی ہے۔۔۔۔
موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے جاتے ہیں۔۔ پیچھے اپنے بھائی اور وقت کے نبی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔فرعون کا وفادار غلام سامری ، بچھڑا بناتا ہے۔۔۔ ویسا بچھڑا جیسا مصری معبدوں میں ہوتا تھا۔۔۔ اور بنی اسرائیلی اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ ہارون علیہ السلام اور ان کے کچھ پاکیزہ حواری انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔۔۔
موسیٰ علیہ السلام طور سے اترتے ہیں ۔۔۔ قوم بت پرست بن چکی ہے اور افسوس ناک بات کہ پوجا بھی اسی بت کی جس کی پوجا ۔۔۔ مصری کرتے تھے۔۔۔ افسوس ہے تجھ پر اے قوم بنی اسرائیل ۔۔۔ نبیوں کی اولاد ہے تو۔۔۔ لیکن غلامی نے تجھے کم ظرف  و کم عقل بنا ڈالا ہے ۔۔۔ زندگی کے وہ پیٹرن اور عادات جو تو نے وقت غلامی میں سیکھے ۔۔۔ اب وہ تیری فطرت کا حصہ بن گئے ہیں۔۔۔ تو جانتے ہوئے بھی جاہل۔۔۔ معجزات و آیات خداوندی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اندھا رہنے پر کیوں بے تاب۔۔۔
جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے۔۔۔ جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کر دیتی ہے۔۔۔ غلام آقا کو لا شعوری آئڈیل مان لیتا ہے۔۔۔ جسمانی آزادی کے بعد ہر شے اپنے آقا کی طرح کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آزادی کے بعد بھی اپنے آقا کی ہی خوشنودی کی چاہ رکھتا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ ایک عجیب قسم کی خودی کا شکار بن جاتا ہے اور اپنی ذہنی اور جھوٹی انا کی تسکین اور بھوک مٹانے کی خاطر تمام اخلاقیات بھلا کر چلنے کو عین حق سمجھتا ہے۔۔۔
ذہنی غلامی ان رویوں کا باعث بنتی ہے جو مزید غلامی کا باعث بنتے ہیں۔۔۔ جب عدل کا پیمانہ خواہش نفس اور ذاتی یا گروہی مفاد بننے لگیں تو معاشرے تباہی کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔۔۔
علم سیاسیات کی رو سے قومی طاقت کو چند عوامل کے حاصل سے ناپا جاتا ہے جن میں جغرافیہ، فوجی طاقت، معاشی طاقت ، آبادی ، انڈسٹریل صلاحیت، قومی کردار اور حوصلہ وغیرہ شامل ہیں۔۔۔
ان سب عوامل میں اہم ترین قومی کردار اور حوصلہ ہے ۔۔۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ قومی کردار ہی وہ اہم ترین سبب تھا جس سے قوموں کو عروج نصیب ہوا۔۔۔ جرمنی دو دھائیوں میں دنیا سے ٹکر لینے کو تیار ہو گیا۔۔۔ جاپان ناگا ساکی اور ہیروشیما کی تباہی کی کچھ ہی سالوں بعد دنیا کی معاشی طاقت بن  کر ابھرا۔۔۔۔ چین جو افیمیون کا ملک کہلاتا تھا ۔۔ آج دنیا کی سپر پاور ہے۔۔۔
قومی کردار ، قوم میں بسنے والے افراد کے کردار کا مجموعہ ہوتا ہے۔۔۔ جب قوم میں سچ اور باطل، فرض اور حق کا تصور پختہ ہو جائے تو ترقی اور کامیابی  ہر موڑ پر قدم چومتی ہے۔۔۔ اس کے برعکس اگر حق و باطل پر ذاتی اور گروہی مفادات غالب آ جائین تو امن اور خوشحالی منہ موڑ لیتی ہے۔۔ ہر طرف افراتفری ہوتی ہے۔۔۔ طاقتور کمزور کی ہڈیان چباتا ہے۔۔۔ اور کمزور اس کا بدلہ اپنے سے کمزور  اور ظلم کا پہلے سے شکار معاشرے سے لیتا ہے۔۔۔
معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔۔ ادارے بےکار ہو جاتے ہیں۔۔ کرپشن، ڈر ، بے راہروی ، غربت اور بے حسی ڈیرے ڈال دیتی ہے۔۔
فرعون سے آزادی اکثریت کے لئے جسمانی آزادی تھی ۔۔۔ اسی لئے غلام پھر اپنے آقاؤن کے طریقے اپنانے لگے۔۔ اللہ نے اپنی نبی موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کی موجودگی کی بدولت پھر سدہرنے کا موقع دیا لیکن وہ بدکرداری جو فرعون کی ذہنی غلامی کی بدولت آ چکی تھی اس نے من و سلویٰ چھوڑ کر اسرائیلیون کو مسور ، ککڑی اور پیاز وغیرہ کی فرمائیش پر مجبور کیا۔۔۔ گویا نا شکری اور من مانی کی طرف راغب کیا۔۔۔ اللہ اس قوم پر رحمتیں فرماتا رہا ۔۔ اس میں نبی بھیجے مگر یہ نبیوں  سے برا سلوک کرتے رہے ، اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتے رہے اور ان کی  نفس پرستی انہیں تقسیم در تقسیم کرتی رہی۔۔۔ یہ آیات خداوندی کی اپنی پسند کی تشریحین کرنے لگے۔۔۔ ان کے علماء بھی سوداگر اور ان کے لیڈر بھی سوداگر بن گئے۔۔۔مفاد اور صرف مفاد ان کا پیمانہ عدل ٹھہڑا یہاں تک کے ایک وقت آیا کہ اللہ رب العزت نے ان کو لعین ٹھہرا دیا۔۔ اور پھر بے بسی اور بے کسی  ان کا مقدر بن گئی ۔۔ کبھی ٹائیٹس نے انھین مارا تو کبھی ہٹلر ان کی قسمت بنا ۔۔۔اور یہ دنیا بھر میں خوار پھرتے ،چھپتے اور بھٹکتے  رہے ۔۔۔
پچھلے ہفتے بیٹے کا نتیجہ تھا ۔۔۔ اس کے ایک کلاس فیلو کے والدین بھی آئے ہوئے تھے۔۔
والدہ ٹیچر سے کہہ رہی تھی۔۔
We have banned urdu speaking in our house. Yester day I over heard my son talking to his father in urdu at the end of the talk he requested his father not to tell this to mama
ہم نے گھر میں اردو بولنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔۔ کل میرا بیٹا اور اس کے والد اردو میں بات کر رہے تھے۔۔ بات ختم کرنے کے بعد  بیٹے نے اپنے باپ کو درخواست کی کہ امی کو نا بتائیے گا۔۔۔
محترمہ بولی آپ لوگوں کی مشکور ہوں کے آپ کی وجہ سے بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے اور انگریزی بھی اچھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔
میں نے اور ام الصمد نے بڑی مشکل سے ہنسی روکی۔۔۔ لیکن گھر آتے ہوئے میرے دل میں غلامی اور آزادی پر سوال اٹھنے لگے۔۔ غلامی کیا ہے؟؟ آزادی کیا ہے؟؟؟
شام گھر  سکائیپ پر ماموں  سے لندن بات ہوئی۔۔۔ پتا چلا کہ ماشاء اللہ میرے ماموں زاد بھائی کو ویسٹ منسٹر کالج میں سکالر شپ ملی ہے۔۔۔ اس کے علاوہ اسے برطانیہ کے ٹاپ کے پانچ کالج سکالر شپ دینے کی آفر کر چکے ہیں۔۔۔ بہت ہی خوشی کی بات تھی۔۔۔ کہ میرا بھائی نے اپنی محنت سے پاکستان کا نام اونچا کیا ہے۔۔۔
میرے مامون کا بیٹا یعنی میرا کزن اپنی قابلیت سے برطانیہ کے صف اول کے کالج ویسٹ منسٹر کالج میں سکالر شپ پاتا ہے۔۔۔ برطانیہ کے ٹاپ کے پانچ کالج اسے سکالر شپ دینے کی آفر کر رہے ہیں کسی گورے کو خیال نہیں کہ وہ ایک پاکستانی اور ایک مسلمان کو اتنا اعزاز اور رسپیکٹ دے رہے ہیں۔۔
دوسری طرف میری بیٹی جو پلے گروپ کا انٹر ویو اس طرح دیتی ہے کہ چار پانچ بار انٹرویو لینے والی اس کے اعتماد اور انٹیلی جنس کی تعریف کرتے ہوئے اسے بہت انٹیلی جینٹ بچی کہتی ہے ۔۔۔ اس سکول میں رہ جاتی ہے۔۔۔ میرے جانے پر بتایا جات ہے کہ اس کے 78 فیصد مارکس تھے جبکہ میرٹ 85 فیصد تھا۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ کا نمبر دینے کا میعار کیا ہے تو خاموشی۔۔۔ نمبر جو ٹیچر نے دیئے وہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہوں تو انکار کر دیا جاتا ہے۔۔۔ پتہ چلتا ہے کہ کسی کی سفارش سے کوئی آگے آ گیا اور یہ پیچھے کر دی گئی۔۔۔ ایک جاننے والی ٹیچر کہتی ہے کہ آپ کو سفارش کرانی چاہئے تھی کیونکہ ڈیڈھ سو بچے رکھنے تھے اور چار سو سے زیادہ نے اپلائی کیا۔۔۔

آج میں ،با حیثیت میڈیا پرسن اور سوشل سائینٹسٹ  پاکستان کو لاحق بیماریوں کا جائیزہ لیتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کے مں حیثیت قوم ہم بھی بنی اسرئیل کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔۔۔ اللہ رب العزت کی لاتعداد رحمتوں کے باوجود ہم کمزور ہیں ۔۔ جس کی وجہ اب تک ہماری اشرافیہ اور عوام کو لاحق انگریز کی ذہنی غلامی ہے۔۔ تھیوری آف سٹریٹیجک کلچر پر کئے پروفیسر حسن عسکری رضوی اور برگیڈئیر فیروز حسن خان کے کام کے مطابق پاکستانی اشرفیہ ایک طرف تو خود کو مسلم رویات کا امیں سمجھتی ہے دوسری طرف برطانوی ٹریڈیشنز پر فخر بھی کرتی ہے اور یورپ کی تقلید کو ترقی کا راستہ سمجھتی ہے۔۔۔
عوام ہمیشہ اشرفیہ کی تقلید کرتی ہے۔۔۔ اور اشرفیہ وسٹرن یا بریٹش ٹرینڈ ہونے پر جہاں ناز کرتی ہے وہاں بھول جاتی ہے کہ  انگریز حاکم تھا  ۔۔۔ اس نے برصغیر فتح کیا تھا۔۔ اس کو زیب دیتے تھے پروٹوکال اور عیاشیان ۔۔۔ جبکہ یہ اشرفیہ جن پر حکومت کر رہی ہے وہ اسی کے ہم نسل اور ہم وطن ہیں۔۔۔
اشرافیہ کے اسی رویے کی وجہ سے عوام بھی کنفیوز  اور انتشار کا شکار ہے اور ابھی تک کوئی سمت نہیں چن پائی اور من مانی اور بے عدلی کو وطیرہ بنائے ہوئے ہے۔۔

 پاکستان کو اگر موجودہ حالات سے نکالنا ہے اور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لانا ہے تو قوم کو شعوری طور پر تعلیم اور کردار سازی پر توجہ دینی ہو گی ۔۔۔ عدل اور انصاف کو ذاتی یا گروہی مفاد پر مقدم جاننا ہو گا۔۔۔ ورنہ  جہان پلے گروپ کے لئے سفارش درکار ہو وہ قوم اگلے ہزار سال میں بھی برطانیہ یا مغرب کے پاؤن کی خاک تک نہیں پہنچ سکتی۔۔۔

اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ذلتون کے گڑھے  میں گرنا ہے یا دنیا میں سر اٹھا کر خوشحال زندگی گزارنی ہے۔۔۔
اللہ ہم پر رحم فرمائے اور عظمت کردار عطا فرمائے۔۔۔
آمین ۔۔ ثم آمین


Friday, February 14, 2014

سرمایہ دار ، میڈیا اور ویلنٹائین ڈے



دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے
(سورة البقرة آیت ۲۵۶)
نوجوانی کا دور اور جوانی بھی وہ جس میں غفلت عروج پر ہو
کیا دور ہوتا ہے۔۔۔ بندہ ہر فکر سے آزاد ۔۔۔ اپنی الگ دنیا میں مگن۔۔۔ ہر لمحے کو جینے والا
کل سے بے خبر ۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ ذمہ داریاں آنے لگتی ہیں۔۔ سمجھ آنے لگتی ہے
وہ زندگی جو ایک سہانہ خواب لگتی ہے آہستہ آہستہ جہدمسلسل بن جاتی ہے۔۔ پھر پتہ چلتا ہے خواب کا زمانہ سہانہ تو ضرور تھا لیکن حقیقی زندگی بہت تلخ اور محنت کا تقاضہ کرتی ہے۔۔۔
میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔۔۔ کالج کا زمانہ غلط فہمیوں میں گزارا۔۔۔ ہر سال عشق کئے ۔۔۔ جو سال کے اختتام پر آ نسوئوں کی صورت میں ختم ہوئے۔۔۔
ہیرو بننے کے چکر میں پہلے ایف ایس سی  پارٹ ون میں ‘‘سپلی’’ آئی ۔۔۔ پھر ایف ایس سی پارٹ ٹو میں بھی ‘‘سپلی’’ لی۔۔۔
دوست بھی ایسے ہی تھے۔۔۔ جو خوابوں میں رہتے اور رکھتے۔۔۔
ایف ایس سی کے زمانے میں سارا کالج دوست تھا۔۔۔  جوکرناچاہتا۔۔۔کر گزرتا۔۔۔ والد صاحب نے موٹر سائیکل لے کر دی۔۔۔توعیاشی کی انتہا اور بے فکری کی نئی زندگی شروع ہی ہو گئی۔۔۔ سارا سارا دن کلاس رومز سے باہر۔۔۔ یاری دوستی اور آوارہ گردی میں وقت کا ضیاع معمول ۔۔۔
اس دور میں شاعری کی۔۔ تقریرین جیتیں ۔۔ گانے کے مقابلے جیتے۔۔۔ ہاراتوتعلیم میں مار کھائی ۔۔۔ فرسٹ ائیر کی ‘‘سپلی’’ ۔۔سیکنڈ ائیر کی ‘‘سپلی’’ نہ روک سکی۔۔۔ بالآخر ایک سال ضائع کیا۔۔۔
سال اول میں جس سے عشق کیا۔۔۔ اس نے تعلیم اور زندگی میں ‘‘نان سیریس’’ ہونے کی وجہ سے  ٹھکرادیا۔۔۔ سال دوم میں بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔  کوئی کیونکر کسی غیر سنجیدہ انسان کے لئے سوچے اور مستقبل کے خواب آنکھوں میں پروئے۔۔۔ ویسے بھی  انسان  خاص طور پر لڑکے، نو جوانی میں محبت اورہوس کے درمیان  کم ہی فرق کر پاتے ہیں۔۔ جبکہ لڑکیاں  جلد نظروں اور سماج کے ہیر پھیر میں دھیان کرنےکے قابل ہو جاتی ہیں۔۔۔
سال ضائع کرنے کے بعد فوج میں ٹرائی کیا۔۔۔ دو مرتبہ آئی ایس ایس بی سے ‘‘ریجیکٹ’’ ہوا۔۔۔ آرمی کے علاوہ کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ اس وجہ سے لوگوں کے کہنے پر بی ایس سی میں داخلہ لے لیا ۔۔۔ ایف ایس سی چونکہ پری میڈیکل تھی۔۔۔ جبکہ بی ایس سی میں میتھس ،سٹیٹس اور اکنامکس رکھا تھا۔۔۔اس وجہ سے دو سال یہاں بھی ضائع کئے اور  پھر پرائیویٹ بی اے کیا۔۔۔

جب ہوش آیا تو دوستیاں یک دم ختم ہو گئیں۔۔۔  آج میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک دو دوستوں کے علاوہ میرا کوئی دوست نہیں۔۔۔ وہ سینکروں دوست یک دم پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔۔۔ جن کے لئے میں نے خود کو اور اپنے گھر والوں کو خراب کیا۔۔۔
ایف ایس سی  کا ہیرو آج اپنے کو نہایت حقیر انسان محسوس کرتا ہے۔۔۔ نوجوانی کی حرکتوں کی یاد ۔۔ شرمندہ کر دیتی ہے۔۔اتنی مار پر چکی ہے کہ آج کاابو عبد الصمد  کل کے ابو عبد الصمد سے ہر لحاظ سے سو فیصد مختلف  ہے۔۔۔ 
اب سمجھ آ رہی ہے کہ زندگی کا حسن ۔۔زندگی کی خوبصورتی ۔۔انسانیت کے درمیان ۔۔۔رشتوں کے درمیان باہمی احترام اور رکھ رکھائو سے ہے۔۔۔ معاشرے ایک معاشرتی معاہدے کے تحت وجود میں آتے ہیں۔۔۔ جہاں ہر کوئی حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی رکھتا ہے۔۔۔
اللہ کی رحمت سے اب سمجھ آئی ہے کہ
گناہ کیا ہے؟
نیکی کیا ہے؟
گناہ کم ظرفی ہے اور نیکی اعلٰیٰ ظرفی
ظلم کیا ہے؟
چیزوں کا اپنے مقام پر نہ ہونا ظلم ہے
ماں ماں ہے
اور باپ باپ
بھائی بھائی ہے
 بہن بہن
اور بیٹی بیٹی ہے
اسی طرح بیوی بیوی ہے
سب کا اپنا اپنا مقام ہے
سو ! اگر ان سب کا مقام ان کو نہ دیا جائے تو یہ کم ظرفی ہے۔
اور گناہ گار ظالم اور کم ظرف ہوتا ہے
زندگی کی خوبصورتی توازن میں ہے
مختلف رشتوں کے درمیان توازن میں۔

توازن احترام سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ من مانی اور نفس پرستی سے۔۔۔
نفس پرست رشتوں کی حرمت پامال کرتا ہے۔۔۔دنیا جائے عمل ہے۔۔۔ ہم جو کرتے ہیں اس کا پھل کا ٹتے ہیں۔۔۔


سا ئنس کی ترقی نے جہاں انسان کے لئے بہت سی سہولیات پیدا کی ہیں۔۔۔وہاں نظریات  اور اخلاقیات میں بھی بدلائو لائی ہے۔۔۔
سائنس حواس خمسہ میں آنے والی چیزوں کو مانتی ہے۔۔۔ جو چیزیں ان حواس کی پہنچ سے دور ہوں ان کا انکار کر دیتی ہے۔۔اسی ‘‘سائنٹفک اپروچ ’’ کا نتیجہ ‘‘ڈارون ازم ’’ہے۔۔۔ جسے آسان لفظوں میں ‘‘طاقتور کی بقا کا نظریہ بھی کہا جا سکتا ہے’’۔۔۔حالا نکہ سائنس  یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ وہ سب کچھ جان چکی ہے ۔۔۔ لیکن جو نہیں جانتی اس پر سوال ضرور اٹھاتی ہے ۔۔۔
 گزشتہ  کچھ صدیوں کی سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ مملک سے دنیا کو  سرمایہ دارانہ نظام  ملا ہے۔۔ سائنس کی طرح یہ معاشی نظام بی  بھی انسانی ذہنی  ارتکا  کا حاصل ہے۔۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد بھی  وہی  ڈارون ازم ہے ۔۔۔یعنی  طاقتور کی بقا۔۔۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام  کا پھل  مادہ پرستی  ہے۔۔۔جس کی انتہا  لذت پرستی ہے۔۔ سرمایہ دارانہ نظام   ہمیں سیاسی طور پر جمہوری نظام دیتا  ہے۔۔اس میں بھی ڈارون ازم کا نظریہ ہی کار فرما نظر آتا ہے۔۔۔
 سرمایہ دارانہ نظام   کے مطابق  تجارت اور معیشت میں حکومت کا کنٹرول نہیں ہونا چاہئے۔۔۔ ریاستی حکومت کا کام صرف لاءاینڈ آرڈر اور سرمایہ دار کے مفاد کا تحفظ ہے۔۔۔ مارکیٹ فورسسز  اپنے مسائل خود حل کرتی ہیں۔۔۔ سرمایہ دارنہ نظام میں سیاسی حکومت بھی سرمایا دار  کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے۔۔ سرمایہ دار ۔۔۔یا جس کے پاس سرمایہ یا دولت ہو۔۔۔ وہ اخلاقیات ، طاقت  اور سیاست کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا ہے۔۔۔
اسی لئے  ایک زمانے میں مانی جانے والی اخلاقی اقدار  ۔۔۔ کچھ عرصے بعد بدل جاتی ہیں۔۔۔ جیسے انیس سو میں خود امریکہ میں اگر  کوئی عورت ٹخنے سے اوپر تک سکرٹ پہنتی تو ۔۔ بے حیا خیال کی جاتی۔۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کا  پیمانہ بدلتا گیا ۔۔اور آج جہان پر آ گیا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔۔۔
سرمایا دارانہ نظام   آج مختلف لیولز پر دنیا کوکنٹرول کر رہا ہے۔۔ ایک عالمی سرمایا دار ہے ۔۔جو جنگیں کرواتا ہے۔۔ ضرورت کے مطابق نظریات کو فروغ دیتا ہے اور پھر انہی نظریات کو ۔۔۔مطلب  نکلے کے بعد  ۔۔۔ غیر انسانی قرار دے کر دنیا کو ان کے خاتمے کی طرف لگا دیتا ہے۔۔۔
پھر علاقائی سرمایا دار ہے۔۔ جو اپنے خطے میں عالمی سرمایا دار کے مفادات بڑھاتا ہے۔۔ اور اس عمل سے اپنے سرمائے میں اضافہ کرتا ہے۔۔۔۔۔
سرمایا دارانہ نظام انسانیت کے نام پر انسانیت کو ختم  کرنے میں لگا رہتا ہے۔۔۔ اگر  پچھلے بیس سال کو ہی دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان دو دہائیوں  میں لڑی گئی جنگوں میں۔۔۔ وہی لوگ متحرک  نظر آئین گے جنہوں نے کروڑوں کو مروا کر  کھربوں کمائے اور اپنے معاشی مقاصد حاصل کئے۔۔۔
سرمایہ دارانہ نظام جہان انسانیت کی بات کرتا ہے وہان قابل غور چیز ہے کہ اس نظام نے انسان کو بھی ایک جنس یا کموڈٹی بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔
آج ہر اشتہار میں آپ کو عورت نظر آئے گی۔۔۔  جو عجیب اور غریب ملبوسات اور خطرناک ادائوں سے  چیز کی تشہیر کرتی ہے۔۔۔ چینلزمیں وہ ڈرامے اور شوز  آپ کو مقبول نظر آئیں گے جن میں خوبصورت عورتیں ہوں۔۔۔
عورت کو بھی اس نظام نے ایسا بے وقوف بنا دیا ہے کہ عورت  موڈرن ازم کے نام پر کسی بھی حد سے گزرجاتی ہے۔۔۔عورت کا جتنا استحصال اس نظام نے کیا ہے ۔۔۔ اتنا عورت کا استحصال کبھی نہیں ہوا۔۔۔
محفلوں میں  یہ ماڈرن خواتیں  لذت پرستی کا سامان مہیا کرتی نظر آتی ہیں۔۔۔ جبکہ عورت کی عزت و احترام کی۔۔۔۔ جگہ اس سے لالچ۔۔۔۔ اور نئی تحزیب کے مقر میعار ہی  اس کی پاپولیریٹی کا سبب بنتے ہیں۔۔۔ اور ماڈرن عورت یہ جانتے ہوئے بھی ۔۔۔انجان بنی رہتی ہے۔۔
دوسری جانب اسلام عورت کو ایک عظیم رتبہ دیتا ہے۔۔
عورت ماں ہے ۔۔تو اس کے قدموں تلے جنت۔۔
بیٹی ہے تو والدین کے لئے جنت کی بشارت
بہن ہے تو بھائی کی غم خوار
بیوی ہے تو   نور نظراولاد کی جنت اس کےقدموں  تلے ، غم خوار اور  دوست۔۔امانت دار اور نگران
بہو ہے تو بیٹی کی ماند
ہر روپ میں قابل عزت اور قابل احترام۔۔۔
 لیکن اس انسان کو کیا کہیں ۔۔جسے اس کے رب نے ناشکرا قرار دیا۔۔
آگ کی چمک دیکھ کر اس کی طرف پروانون کی طرح ٹوٹتا ہے۔۔ مگر خیر کی ٹھنڈک کو  چھوڑ دیتا ہے۔۔  کماڈٹی یا جنس بننا پسند کرتا ہے لیکن اشرف المخلوقات بننے کو  برا سمجھتا ہے۔۔۔
آج  ویلنٹائین ڈے ہے۔۔ جس میں  کئی بہن بھائی اپنے مقامات سے  گرنے کو  ترجیح دیں گے۔۔۔ مادہ پرست ،لذت پرستی  میں خود کو رسوا کریں گے۔۔۔ محبت کے نام پر ہوس راج کرے گی۔۔۔خود کو غیرت مند جاننے والے ۔۔دوسرے کی غیرت کو  چیلنج کر کے۔۔اپنی غیرت  کا پول کھولیں گے۔۔۔
سرمایہ دار  ٹی وی چینلز پر اشتہارات اور پروگراموں کے ذریعے ۔۔ اس دن کی تشہیر کرے گا۔۔ عورت  اپنی مرضی سے لذت پرستی کا سامان بنے گی۔۔۔ ہوس کی منڈی میں دوسری اشیاء کے ساتھ ساتھ عورت بھی بکے گی۔۔۔
شیطان آج اپنی طاقت کے عروج پر ہے۔۔ اسے سرمایا دارانہ نظام کی صورت میں اسے سینکروں  اتحادی میسر آ گئے ہیں۔۔۔ لیکن دوستویاد رکھنا  تم اللہ کے بندے ہو۔۔۔اور یہ بھی ضرور یاد رکھنا کہ تمھارے ابا  حضرت آدم علیہ سلام پر اللہ رب العزت نے فرشتوں کے سامنے فخر کیا تھا۔۔۔
آج کہیں تم ادب و آداب گنوا نہ دینا۔۔۔معاشرے کا حسن توازن اور احترام میں ہے۔۔۔ اور یہ ہی چیز  معاشرے  کو طاقتور بناتی ہے۔۔۔ بس اس بات کو یاد رکھنا۔۔۔ اعلٰیٰ ظرف بننا ۔۔۔ اور کم ظرفی سے اللہ کی پناہ مانگنا۔۔۔
اللہ ہمیں عدل پر چلنے والا بنائے۔۔۔ آمین!

Tuesday, February 11, 2014

اخلاقی اقدار سے دوری بے حس بناتی ہے


A small amount of Courtesy can win a heart
A little slip of tongue can tear it apart
Learn from mistakes if you think you are smart
Mannerism is the best winning art

صبح عبد الصمد کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا کہ دیکھا پٹرول کی سوئی بالکل زمین پر لگی ہوئی ہے۔۔۔ سوچا بیٹے کو اسکول اتار کر پٹرول بھراتا ہوں ۔۔۔ عبد الصمد کو اسکول اتارا اور قریبی پٹرول پمپ کی طرف چل پڑا ۔۔۔ وہاں اچھا خاصا رش تھا۔۔۔ سوچا کافی وقت لگ جائے گا دوسرے پمپ چلتا ہوں۔۔۔ بیٹی، جو صبح بڑے بھائی کو چھوڑنے ساتھ جاتی ہے۔۔۔۔ اسے چپس لے کر دیئے اور چل پڑا دوسرے پمپ کی جانب۔۔۔۔
  یہاں رش بہت کم تھا۔۔۔۔ایک گاڑی آگے کھڑے تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک ساٹھ پنسٹھ سال کے حضرت بیٹھے تھے۔۔۔ جو شکل سے ریٹائیرڈ فوجی افسر لگ رہے تھے ۔۔۔۔ ان کی گاڑی کسی وجہ سے بند ہو گئی تھی اور وہ اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ میرے اندر کا جانور زور پر آیا ۔۔۔ اگلی گاڑی نکلی تو میں نے فورن سائیڈ سے گاڑی نکال کر ان سے آگے گاڑی کر لی۔۔ حالنکہ کسی بھی صورت میں یہ عمل غلط تھا۔۔۔ اتنی دیر میں ان کی گاڑی اسٹارٹ ہو گئی۔۔۔
انھوں نے گاڑی موڑی اور اسی پمپ کی دوسری سائیڈ پر میرے برابر آ کر کھڑے ہو گئے۔۔۔ اتنے میں ان کے آگے کھڑی گاڑی پٹرول بھرا کر نکل گئی اور ان کی باری آ گئی۔۔۔ حضرت نے فاتحانہ مسکرہٹ دیتے ہوئے میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کے میرا حق مار کر بھی تیری باری ابھی تک نہیں آئی۔۔۔ پٹرول بھروا کر نوٹ آپریٹر کو دیا جو چینج لینے اندر چلا گیا۔۔۔ یہ حضرت میری سائیڈ والی کھڑکی کی طرف آئے اور مسکراتے ہوئے شیشہ نیچے کرنے کو کہا۔۔
میں نے شیشہ نیچے کیا تو بولے ۔۔۔ یہ آپ کی بیٹی ہے ؟
میں نے کہا جی
بولے ۔۔ لگتا ہےچپس کھاتے کھاتے سو گئی ہے۔۔۔
اتنے میں کیشئیر سے پیسے لے کر آپریٹر آ گیا۔۔۔
مسکرائے اور خوش رہو کہہ کر چل دیئے۔۔۔
شرمندگی کا احساس جو ان کا پٹرول ٹینک کھولتے ہوئے مسکراہٹ  پر شروع ہو گیا تھا مزید بڑھ گیا۔۔۔
گھر آ کر جب والد صاحب کو مزاحاً بتائی تو ابو بولے
تم نے ایک غلط حرکت کی ۔۔۔۔ بوڑھا اور پڑھا لکھا  بندہ تھا اس لئے تو تکرار تک نوبت نہیں آئی لیکن جس فادرلی یا بزرگانہ طریقے سے وہ تمھیں سمجھا کر اور شرمندہ کر کے گیا ہے وہ بہت قابل تحسین ھے۔۔۔
میں ابھی تک شرمندگی محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ اگر میں انتظار کر لیتا تو بھی چند منٹون میں میری باری آ جاتی۔۔۔ تیزی بھی ماری اور شرمندگی بھی ہوئی۔۔۔

عقل مند انسان حالات و واقعات سے سیکھتا ہے۔۔۔ تجربات کی بھٹی فرد کو کندن بناتی ہے۔۔۔
انسان اور جانور کے درمیان سب سے بڑا فرق اخلاقیات ہے۔۔۔ اخلاقیات  ہی رشتون اور معاشرتی حدود و قیود کا تعین کرتی ہیں۔۔ فرائض اور حقوق واضع ہوتے ہیں ۔۔۔ اور انسان اسفل السافلین سے احسن تقویم بن  جاتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی اس پر ڈارون ازم کا بھوت سوار ہو جاتا ہے اور وہ جسمانی طاقت کی زور پر اپنی اخلاقی اور معاشرتی حدود و قیود پھلانگ کر اپنی طاقت منوانے اور دوسرے کا حق چھیننے کی جستجو کرنے لگ جاتا ہے اور یون چھوٹے لیول پر بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔۔۔ گو کہ معاشرہ ایسے بگاڑ کو روکنے اور بیج کنی کرنے کے لئے قوانین رکھتا ہے مگر یہ قوانین تمام کوششون کا راستہ نہیں روک سکتے کیونکہ  قوانین یا تو جرائم ۔۔۔ یعنی ان حقوق پر جو، ریاست اپنے شہریون کو گیرنٹی کرتی ہے ،پر نقب زنی پر لاگو ہوتے ہیں۔۔۔ یا پھر پرسنل یا فرد کے ذاتی حقوق کے قوانین ہیں جو دو افرد کے درمیان تناضع کی صورت میں اگر ایک فریق قانوں سے مدد کی درخواست کرے تو عمل میں آتے ہیں اور عدالت حق دلواتی ہے ۔۔۔ ان قوانین کو سول لاء کہا جاتا ہے۔۔۔ ان دو قوانین کے علاوہ اخلاقی قوانین بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ ان پر عدالت میں گو پکڑ نہیں ہوتی لیکن یہی بنیاد بنتے ہیں ہر قسم کے بگاڑ کے۔۔۔ جن معاشروں میں اخلاقی قوانین کی پاسداری نہیں کی جاتی وہ کمزور ہوتے جاتے ہیں اور بالاخر تباہ ہو جاتے ہیں۔۔۔
شاید پاکستانی معاشرے کی  زبون حالی کی وجہ بھی اخلاقی اقدار سے آہستہ آہستہ دوری ہے۔۔۔ یہ چیز ہمیں من حیثیت قوم بے حس بناتی جا رہی ہے جس کا مظاہرا ہمیں ہر دوسرے چوک پر نظر آتا ہے۔۔۔ طاقتور کمزور کے حقوق غصب کرتا ہے۔۔۔ لوگ تماشا دیکھتے ہیں ۔۔۔ اور تماشہ ختم ہونے پر مسکراتے چل دیتے ہیں اس پر المیہ یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں بلکہ طاقتور کا حق تصور کیا جاتا ہے۔۔۔