Saturday, June 8, 2024

عشق اور فنا: نفس کی منزل

 


اپنی فطرت کو سمجھے بغیر اپنی غلطیوں کا علاج کیسے ممکن ہے۔۔۔ اپنی لیمیٹیشنز کی حقیقت تب ہی سمجھ آئے گی جب خود کو سمجھ گے۔۔۔ نفس بھی ٹیرھی ہڈی کی طرح ہے اسے سیدھا کرنے کی کوشش میں یا تو ہمت ہار جاو گے یا اسے توڑ دو گے اور دونون صورتین ہی قابل تحسین نہیں۔۔۔ سو علاج فطرت کو سمجھ کر کرنا ہے۔۔۔۔ نفس کا علاج صرف عشق کی بھٹی میں ہوتا ہے۔۔۔ اور عشق کرنے سے ہوتا ہے۔۔۔ ظرف کی طرح عشق کی بھی سٹیجز ہیں۔۔ پسند کرنا، انسیت پیدا ہونا ، محبت ہونا اور پھر عشق اور انتہا فنا اور فنا کے بعد بقا۔۔۔
عشق کا آغاز صحبت سے شروع ہوتا ہے جو تعلق پیدا کرتی ہے اور تعلق جب پختہ ہو جاتا ہے تو عشق بن جاتا ہے۔۔۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یاد رکھیں۔۔۔ آپ نے فرمایا کہ برے ہم نشیں اور اچھے ساتھی کی مثال عطار اور لوہار کی سی ہے ۔اچھا ساتھی عطر فروش کی طرح ہے کہ یا تو وہ تمہیں عطر تحفہ دیگا یا تم اس سے عطر خرید لو گے یا کم ازکم تم اس کے پاس اس کی پاکیزہ خوشبو سے لطف اندوز ہوگے۔برا ساتھی بھٹی میں دھونکنے والے کی طرح ہے جو یاتو تمہارے بدن اور کپڑے کو جلا دے گایا تم اس کی بدبو پاوگے۔ ۔۔۔ سو دوستو نفس کی اصلاح چاہتے ہو تو نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو ۔۔۔ منازل آسان ہو جائین گی اور رحمت کثیر پاو گے۔۔ الشاء اللہ

*******
زندگی اشرف المخلوقات کی طرح گزارنے کے لئے زندگی کا مقصد ہونا ضروری ہے۔۔۔ یہی مقصد سمت کا ادراک اور تعین کرتا ہے۔۔۔ ظرف کی منازل سفر اور راہ میں ایکوریسی لاتی رہتی ہیں۔۔۔ یعنی فی سبیل للہ پر شروع ہوا سفر ظرف کی ترقی سے صراط المسقیم پر بلا آخر لے آتا ہے۔۔۔ اب فیصلہ ابن آدم کو کرنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اسفل السافلین کی حیثیت سے مادی حیات کا سفر کاٹے گا یا پھر احسن تقویم کی حیثیت سے۔۔۔ ہاں چاہے جس حیثیت سے بھی سفر کٹے یہ یاد رکھین سفر زمان و مکان میں سب سے بڑا نقب زن نفس ہے ۔۔۔ جو اسفل کو مذید پستی پر لے جاتا ہے اور احسن کے لئے جگہ جگہ کھڈے کھود کر گرانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ مقصد والے سفر میں فریکشن زیادہ ہے ۔۔کہ انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کب نفس اُسے انا کے نشے میں مست کر دے اور وہ جن جن پھندون سے بچنے کی سعی کر رہا ہے ، انہی کا اثیر ہو جائے۔۔۔۔ ایک اور بات فیصلہ آپ نے کرنا ہے لیکن توفیق اور عمل کی ہمت اور نیت اللہ کی عطا ہے۔۔۔۔ مرشد کی نگاہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ موٹیویشن اور چاہ بڑھاتی ہے۔۔۔ رابطہ ٹوٹ جائے تو پیالہ خالی اور آواز زیادہ ہو جاتی ہے۔۔۔ یا اللہ تو کریم ہے، شفیق ہے، مالک الملک و ذوالجلال ولا اکرام ہے ۔۔۔توفیق و ثابت قدمی عطا فرما ۔۔۔ تیری رحمت نا ہوئی تو تیرے بندے ذلت و رسوا ہو جائین گے۔۔۔ یا مالک المک ، یا کریم ۔۔۔ کرم فرما کہ تو ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے اور ہم تیرے بندے۔۔۔ صراط المسقیم کی جانب چلا اور راستہ آسان فرما۔۔ آمین ثم آمین

Thursday, August 24, 2023

قصہ عروج و زوال ، میں نے کیا دیکھا ،کیا سیکھا؟

 


جناب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کا قول مبارک ہے کہ جب زمانہ مہربان ہوتا ہےتو اپنی صفات بھی ودیعت کر دیتا ہے اور جب مخالفت پر اترتا ہے تو انسان کی ذاتی صفات بھی چھین لیتا ہے۔۔ عروج و ذوال زندگی کا حصہ ہیں ۔۔ جو چیز اوپر جاتی ہے وہ واپس نیچے بھی آتی ہے۔۔۔
میں نے پچھلے سترہ سال سے پاکستانی الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہوں۔۔ اس عرصے میں بہت سے عروج و ذوال دیکھے۔۔۔ عروج سے زیادہ ذوال میں آزمائش دیکھی۔۔۔ زمان و مکان کی قید میں گزرنے والی یہ زندگی ، انسان کو بے صبرا اور ناشکرا بنا دیتی ہے۔۔۔ عروج میں انا آزمائش بنتی ہے اور ذوال میں تنزلی انسان کو نا شکری اور نا امیدی کی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔۔۔
انسان کو اللہ نے اپنی صفات ودیعت کی ہیں۔۔۔ ان صفات کا بوجھ اکثر مجھ جیسے کم ظرف اُٹھا نہیں پاتے اور مقام کو منزل اور لمہے کو ہمیشگی سمجھ بیٹھتے ہیں۔۔۔ ان حالات میں صرف اللہ کی رحمت ہی راستہ دیکھاتی ہے اور تباہی سے بچاتی ہے۔۔
میں ایک سال سے تقریباً بے روزگار ہوں۔۔۔ اس بار حالات نے بہت کچھ سیکھایا ہے۔۔۔ میرے چند تجربات یہ ہیں
۱۔ اللہ کی رحمت پار لگاتی ہے۔۔ ٹیلنٹ ، محنت کامیابی کے تقاضے ضرور ہیں لیکن اگر رحمت نا ہو تو یہ سب کچھ بیکار ہے۔۔۔ مثال کے توڑ پر اگر آپ میرا نام گوگل، گوگل سکالر یا گوگل بُکس پر سرچ کرین تو آپ کو بہت سے رزلٹ مل جائین گے۔۔۔ میری سی وی پڑھین تو آپ کا یہی خیال ہو گا کہ میری سی وی بہت مضبوط ہے۔۔۔ میرے اساتزہ گواہی دین گے کہ میں بین الاقوامی تعلقات کے سبجیکٹ میں کافی مضبوط ہوں۔۔۔ الحمدوللہ طارق اسماعیل ساگر جیسے لینجڈ صحافی میرے یو ٹیوب چینل کو سول ملیٹری بیوروکریسی کو ریکیمنڈ کر چکے ہیں۔۔۔ لیکن میں ایک سال سے بے روزگار ہوں۔۔ ہر تیسرے روز میرا کوئی کالم یا تحریر شائع ہوتی ہے ۔۔لیکن پھر بھی تمام کوششون اور سفارشوں کے باوجود میں بے روزگار ہوں۔۔۔۔ مگر کیوں۔۔۔ شاید مجھ سے عروج کے زمانے میں کوئی غلطی ہوئی۔۔۔یا پھر میں اپنے رب سے اپنے تعلق میں کوتاہی کر بیٹھا۔۔۔ یا میرے رب نے مجھے نوازنے کے لئے اس آزمائش میں ڈالا۔۔۔ حاصل کلام یہ یاد رکھیں کے وہ یوسف علیہ السلام جن کی ایک جھلک نے زنانان مصر کو ایسا مبحوص کیا کہ انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لین ۔۔۔ وہی یوسف علیہ السلام مصر کے بازار میں کتنا سستا بیچے گئے۔۔۔۔ پھر یہی یوسف عزیز مصر کے گھر میں پلے اور تمام آزمائیشون سے گزر کر خود عزیز مصر بنے ۔۔۔ یہ اصول یاد رکھین رحمت پار لگاتی ہے رحمت کے بغیر بندہ ایک قدم چلنے کی طاقت و ہمت نہیں رکھتاَ۔۔۔
جے ویکھاں میں عملاں ولے،تے کُج نئی میرے پلّے
تے جے ویکھاں تیری رحمت ولّے،تے بلّے بلّے بلّے
۲۔ جب تک رب نا چاہے کوئی خیر یا پھر شر نہیں پہنچا سکتا۔۔۔ ہم ساری عمر دوسرون پر شک کرتے ہیں اور کدورتین پالتے ہیں ۔۔۔ لیکن یقین جانین کئی بار آپ کے دوست اور ہمدرد صدق دل سے آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن مقام و عہدہ رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔۔۔ اور کئی بار جب رب نے نوازنا ہوتا ہے تو ایک اجنبی آپ کے لئے وسیلہ بن جاتا ہے ۔۔۔ رب سے تعلق میں سچے رہین ۔۔ نا امیدی پاس بھی نہیں بھٹکے گی۔۔۔ سختی آگے کے مقام کی ٹریننگ کا سبب بنے گی اور مضبوط کرے گی۔۔۔
۳۔ مان باپ اولاد کی چھوٹی سی تکلیف نہیں برداشت کر سکتے ہالنکہ انہوں نے آپ کو بنایا نہیں۔۔۔ پھر آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ جس نے آپ کو پیدا کیا، آپ میں روح پھونکی۔۔۔ وہ آپ کو تکلیف دے کر خوش ہو گا۔۔۔ تکلیف و آزمائیش یا تو آپ کی ٹریننگ کے لئے آتی ہیں یا پھر آپ کو پاک کرنے کے لئے۔۔۔ اب جو خود احتسابی کی راہ پا گیا وہ کامیاب ہوا اور مضبوط ہوا اور جو یہ اسباق نہیں سمجھ سکا اُسے مذید بھٹی میں جلنا پڑا
۴۔ کوئی سختی بغیر حکمت کے نہیں ہوتی۔۔۔ میں پچھلی اگست تک ایک نجی چینل کا ہیڈ کرنٹ افئیرز تھا۔۔۔ میں نے اپنی عزت اور وقار کے لئے استعفہ دیا۔۔۔ حالات نے مجھے اشارہ کیا کہ میں میڈیا کو خیر آباد کہنے کی تیاری کروں اور اپنی تعلیم مکمل کروں۔۔۔ میں نے اشارہ پہچانا اور ایم فل بین الاقوامی تعلقات میں ایڈمیشن لے لیا۔۔۔ آج ایک سال بعد میرا تھیسس شروع ہو گیا ہے۔۔۔ اللہ نے چاہا تو انشاء اللہ دسمبر تک تھیسس مکمل کر لون گا۔۔۔ اگر میں جاب پر ہوتا تو شاید ایم فل نا کر پاتا اور شاید پہلے سمسٹر میں ہی چھوڑ چکا ہوتا۔۔۔ میں اگر اب نا شکری کرون تو حقیقتاً یہ نا شکری ہو گی کیونکہ اس عرصے میں میں نے جو کچھ سیکھا وہ جند لاکھ روپون سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔ میرے لئے نئی راہین کھل رہی ہیں اور میں اُس فیلڈ کی طرف جا رہا ہوں جو ہمیشہ سے میری محبر رہی ہے۔۔۔۔ سو یاد رکھین ہر کام میں اللہ کی حکمت ہے۔۔۔ اور اللہ کا ہر فیصلہ بندے کے لئے خیر اور مبارک ہے۔۔
۵۔۔ میں اصول پرست انسان ہوں اور ایک حد سے زیادہ اصولون پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔۔۔ اسی لئے میرا موجودہ حالات میں میڈیا سے دور رہنا میرے لئے رحمت رہا۔۔
ذوال ،عروج سے زیادہ سیکھاتا ہے بلکہ میں یہان تک کہوں گا کہ عروج کے بعد آنے والا ذوال آپ کو توڑتا ہے اور پھر رب کی رحمت ہو تو ایک من موہنا ظرف بنا دیتا ۔۔۔۔ بس ایک چیز سمجھنی لازمی ہے۔۔۔ سلامتی اللہ کے ساتھ سچے تعلق میں ہے۔۔۔۔ رحمت ہی پار لگاتی ہے۔۔۔ نا دوست کام آتے ہیں، نا رشتے اور نا ہی کوئی ہنر۔۔۔۔

Thursday, July 6, 2023

The Era of Neo Ignorance




 

We live in an era of neo-ignorance. We are surrounded by information, but we are more ignorant than ever before. We have so much sight but alas have too little vision to see what have we become. We worship idols of our selfish interests, and our actions do not match our words. Our thinking patterns match those of the jahiliyyah, the age of ignorance before Islam. We unite against good, knowing we are wrong, but the status quo suits us. Greed has taken our sense of pride, honor, and right. We do good not for the sake of pleasing Allah, but to show off, to save tax, and all the other hypocritical reasons one can find. Alas, we call ourselves Muslims, but Islam is practiced only when it suits us, and we become jahils when our interests suit jahiliat.

This is the era of neo-ignorance. We are a generation of people who have been raised on the internet, where information is instantly available at our fingertips. But with this abundance of information comes a new problem: we don't know what to believe. We are constantly bombarded with conflicting news stories, opinions, and facts, and it can be hard to know what is true and what is not.

In the Era of Neo Ignorance, we are also more likely to believe things that confirm our existing beliefs. This is called confirmation bias, and it is a powerful cognitive bias that can lead us to make poor decisions. For example, if we are already convinced that climate change is a hoax, we are more likely to believe news stories that support that belief, and we are more likely to dismiss news stories that contradict it.

Confirmation bias can also lead us to surround ourselves with people who share our beliefs and to avoid people who have different beliefs. This can create an echo chamber, where we are only exposed to information that supports our existing views. This can make it very difficult to change our minds, even when presented with new evidence.

The Era of Neo Ignorance is a challenge for everyone, but it is especially challenging for Muslims. As Muslims, we are commanded to seek knowledge and to understand the world around us. But in the Era of Neo Ignorance, it can be difficult to know where to start. There is so much information out there, and so much of it is conflicting.

How can we navigate the Era of Neo Ignorance and still remain true to our Islamic values?

· Be critical of the information you consume. Just because something is on the internet doesn't mean it's true.

· Be open to different viewpoints. Even if you don't agree with someone, it's important to listen to their perspective.

· Be willing to change your mind. If you're presented with new evidence, be willing to reconsider your beliefs.

· Surround yourself with people who challenge you intellectually. This will help you to think critically and to avoid falling into echo chambers.

· Be your self and be proud of what you are. You have a rich history, understand your paradigms which will help you to come out of paradoxes you have entrapped your self.

· Understand Quran and Hadith and let your knowledge and Love for your lord and his Prophet guide you in right direction.

The Era of Neo Ignorance is a challenge, but it is also an opportunity. We can use this time to learn and to grow, and to become better Muslims. We can use this time to build bridges between different cultures and to promote understanding and tolerance. We can use this time to make a difference in the world.

Let us not be a generation of neo jahils. Let us be a generation of Muslims who are guided by love , knowledge, wisdom, and compassion. Let us be a generation of Muslims who make a difference in the world.

 


Friday, June 3, 2022

زندگی اپنی ہے طلسمِ ہَوس سراپا؟؟؟



بہت زمانے پہلے کی بات ہے۔ غالباً  یہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا۔۔۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔۔تاکہ توحید کی جگہ بت پرستی خلقت کا شعار بن جائے۔۔۔  فلسطین کے ایک قصبے میں ایک قدیم درخت تھا۔۔۔ شیطان کی کوششوں سے لوگوں میں پہلے توہم پرستی عام ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ اس درخت کی کچھ لوگوں نے پوجا شروع کر دی۔۔۔

اسی قصبے میں ایک توحید پرست شخص رہتا تھا۔۔ جس کا دل لوگوں کے درخت سے متعلق عقائد بہت دکھتا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور شریعت موسوی پر عمل کرین۔۔

ایک دن  اس نے سوچا کہ وہ۔۔ اس درخت کو ہی کاٹ دے گا۔۔تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو درخت اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا لوگوں کی کیا مرادیں  پوری کرے گا۔۔۔

اسی سوچ میں اس نے کلہاڑی اٹھائی اور درخت کا ٹنے نکل پڑا

درخت کے قریب پہنچا تو  اسے عزازیل (ابلیس)  ایک باریش بزرگ  کی صورت میں نظر آیا۔۔۔ سلام دعا کہ بعد عزازئیل  نے پوچھا کہ وہ کلہاڑی کے ساتھ کیا کرنے آیا ہے۔۔

اس شخص نے اپنی نیت اور عزم  بیان کیا۔۔

عزازئیل بولا: تمھاری نیت بہت  اچھی ہے۔۔ لیکن درخت بھی جاندار ہوتے ہیں۔۔ اگر لوگ کم علمی میں اس کی پوجا کر رہے ہیں تو اس میں درخت کا کیا قصور۔۔

وہ شخص  بولا:  بے شک آپ درست کہتے ہیں۔۔ لیکن اس درخت کی وجہ سے لوگ شریعت موسوی کو بھلا رہے ہیں اور بت پرستی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔ میں اس درخت کو  کاٹنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے کٹنے سے  خلقت گمراہی سے بچے گی۔۔ اور معاشرے میں سراحیت کرتے  توہم پرستی کے جراثیم ختم ہو جائیں گے

عزازیل بولا: بے شک یہ ایک اچھی سوچ ہے۔۔ مگر اس میں بے چارے درخت کا کیا قصور۔۔ دیکھو کتنے پرندوں نے اس درخت پر گھونسلے بنا رکھے ہیں۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک مہینے کا وقت مجھے دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری بات ضرور سمجھ لیں گے۔۔۔ اس طرح ایک جاندار اور اس سے جڑے درجنوں پرندے بھی بچ جائیں گے۔۔۔ اس ایک مہینے کے دوران تمھیں صبح کی عبادت کے بعد تکئیے کے نیچے  سے 3سونے کے سکے بھی ضمانت کے  طور پر روزانہ  ملیں گے۔۔ جو میری طرف سے ضمانت ہو گی۔۔ اگر ایک مہینے کے اختتام تک میں لوگوں کو سمجھا نہ سکا  تو جو تم چاہو وہ کرنا۔۔ لیکن میری درخواست ہے کہ  مہینے تک مجھے   کوشش کرنے کی مہلت ضرور دینا۔۔

اس شخص نے سوچا چلو کہتا تو یہ  بھی ٹھیک ہے۔۔ درخت میں جان تو ہوتی ہے۔۔دوسرا اس درخت پر پرندے بھی آباد ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر یہ ضمانت بھی دے رہا ہے۔۔۔ اور مہینے تک صبر کرنے کا معاوضہ بھی بہت زیادہ دے رہا ہے۔۔

وہ شخص بولا: ٹھیک ہے حضرت آپ کے پاس ایک مہینہ ہے۔ ایک مہینے بعد میں آؤں گا۔۔ اگر  لوگ پھر بھی  اس درخت کی پوجا کرتے رہے تو خدا کی قسم میں یہ درخت کاٹ دوں گا اور کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔

دوسرے دن صبح کی عبادت کے بعد یہ شخص  گھر واپس آیا تو اس نے اپنے تکیے کے نیچے 3 سونے کے سکے  رکھے پائے۔۔ شخص مسکرایا اور یہ سکے جیب میں رکھ لئے۔۔ دوسرے دن، تیسرے دن۔۔۔۔  ہر روز  3 سکے صبح کے وقت اسے مل جاتے۔۔۔ بندہ خوش تھا کہ اس کی ضروریات  بغیر ہاتھ ہلائے ہی پوری ہو رہی ہیں۔۔

تیسویں دن  جب وہ واپس آیا تو تکئے کے نیچے کچھ نہیں تھا۔۔۔ بندے کو بہت غصہ آیا۔۔ غصے کے ساتھ ہی ایک دم اس کا ایمان پھر جاگ گیا۔۔۔ اٹھا اور کلہاڑی تیز کرنے لگا۔۔ اور اونچی آواز میں قسمیں کھانے لگا۔۔۔ آج میں خدا کی قسم اس درخت کو کاٹ کر ہی کچھ کھاؤں پیؤں گا۔۔۔

اسی غصے  میں وہ چلا درخت کاٹنے۔۔۔ درخت کے پاس پہنچا تو  سامنے عزازئیل کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔

یہ آدمی چیخا: حضرت آگے سے ہٹ جائیں۔آج میں آپ کی کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔ میں آج یہ درخت کاٹ کر ہی رہوں گا۔۔

عزازئیل مسکراتے ہوئے  سامنے سے ہٹ گیا۔۔

غصے سے  اس شخص نے کلہاڑی گمائی لیکن جیسے ہی کلہاڑی درخت سے ٹکرائی تو بندہ کانپ اٹھا۔۔۔جیسے کلہاڑی لکڑی سے نہیں بلکہ لوہے سے  ٹکرائی ہو۔۔۔

عزازئیل  اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔۔۔

یہ شخص کئی گھنٹے کوشش کرتا رہا لیکن درخت جیسے فولاد کا بن  گیا تھا۔۔۔

آخر تھک کر یہ  بندہ  زمیں پر بیٹھ گیا۔

  عزازیل سے مخاطب ہو کر بولا: حضرت ماجرا  کیا ہے؟

عزازیل مسکراتے ہوئے بولا: اے بد بخت میں عزازیل ہوں، تمھارے اور تمھارے ابا   آدم  علیہ سلام کا ازلی دشمن۔۔ تم جب انتیس دن پہلے آئے تھے اس وقت تم ایمان کی جس کیفیت میں تھے۔۔ مجھے ڈر ہوا  کہ تم یقیناً  درخت کاٹ دو گے اور میرا انسانوں کو بہکانے کا یہ وار ضائع جائے گا۔۔۔  سو میں نے سوچا کہ تمھاری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاؤں۔۔ رحمدلی  کی بات کرتے ہوئے میں نے تمھارے فطری لالچ کو چنگاڑی دکھائی۔۔ تم نے مصلحت   کے نام پر میری پیشکش قبول کر لی۔۔ پھر میں نے انتیس دن تمھیں حرام کھلایا۔۔۔ جب حرام کا مال تم میں رچ بس گیا  تو تم  میرے لئے خطرہ نہیں رہے۔۔۔ اب تم جو مرضی کر لو تم اس درخت کو کاٹ نہیں سکو گے۔۔ اور لوگ اس کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔۔

دوستو

معاشرے سماجی  معاہدے کی وجہ سے  وجود میں  آتے ہیں۔۔جہاں ایک طرف تو فرد کے حقوق ہوتے ہیں تو دوسری طرف  فرائض۔۔ ان حقوق و فرائض  کی ادائیگی  ہی پیمانہ وہ ہے جس سے  معاشرتی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔۔ معاشرے کمزور  پڑنا  تب شروع ہوتے ہیں جب افراد فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگیں۔۔ اگر عوام کو اپنے حقوق اور فرائض کا ادراق ہو۔۔اور وہ اپنے فرائض ادا کر رہے ہوں تو معاشرہ  مضبوط رہتا ہے۔۔ لیکن جیسے ہی فرائض میں کوتاہی شروع ہوئی۔۔جس کی وجہ کوئی بھی ہو۔۔ مسائل در مسائل آنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔

مملکت خدا داد  پاکستان۔۔۔ دنیا کی خوش نصیب ترین ریاست ہے۔۔۔ الحمدوللہ۔۔۔ یہاں میدان بھی ہیں، صحرا بھی ہیں، برف پوش پہاڑ بھی۔سر سبز  وادیاں بھی، دریا بھی ہیں، ساحل سمندر بھی۔۔ اس کی 22کڑور آبادی  اسے  افرادی قوت کے معاملے میں ایک طاقتور ملک بناتی ہے۔۔۔ اللہ نے اس عظیم الشان ریاست کو طرح طرح کی معدنیات سے مالا مال کیا ہوا ہے۔۔۔ اس کی  جغرافیائی  محل وقوع اسے خطے  کے تمام ممالک میں سب سے ممتاز کرتا ہے۔۔۔ یہ وہ پل ہے جو وسطی ایشیاء ، برصغیر  اور مشرق  وسطٰی کو آپس میں ملاتا ہے۔۔

اللہ رب العزت کی عطا کردہ تمام  نعمتوں کی موجودگی میں بھی یہ عظیم ملک، بے برکتی اور انتشار کا شکار ہے۔۔۔ جس کی وجہ  معاشرے  کے ہر  سطح پر موجود   بے عدلی ہے۔۔۔ اس بے عدلی کی وجہ۔۔۔ ہر سطح پر افراد کی طرف سے کی جانے والی۔۔۔ اپنے اپنے فرائض میں کوتاہی ہے۔۔ ہم حق مانگتے ہیں۔۔۔ لیکن فرائض ادا کرنا نہیں چاہتے۔۔۔   الیکشن ہوتے ہیں۔۔ ہم جنھیں گالیاں دیتے ہیں۔۔پھر انہی کو برادری،  عقیدت۔۔۔صوبائیت اور زبان۔۔۔ کی بنیاد پر وؤٹ بھی ڈال دیتے ہیں۔۔۔  تھانے،کچہری اور چھوٹے چھوٹے کام کروانے کے لئے نا اہل اور بد قماش لوگوں کو اپنا راہنما بنا لیتے ہیں۔۔بات انقلابوں کی کرتے ہیں، لیکن خود اپنی ذات اور خاندان میں انقلاب نہیں لا پاتے۔۔۔ بات نظریات کی کرتے ہیں لیکن تقلید  غیروں  کی کرتے ہیں۔۔۔ دوسروں کے طریقوں کو جانتے ہیں، اپنی تحزیب کا ادراق نہیں رکھتے۔۔۔ غیر کی زبان بول کر فخر کرتے ہیں اپنی زبان سے نا واقف رہتے ہیں۔۔۔

  افسوس! ہم اپنے پرکھوں کو بھول چکے ہیں اور غیروں پر فخر کرنے لگے ہیں۔۔ برائی کس قوم میں نہیں۔۔مضبوط قومیں  اپنے نقائص چھپاتی ہیں اور اپنی اچھائیوں کو مشہور کر کے ان پر فخر کرتی ہیں۔۔ لیکن ہم وہ قوم ہیں جو اپنے نقائص کا ڈھنڈورا پیٹتے  ہیں۔۔۔ اور اس غلیظ  حرکت سے خود کو دانشور ظاہر کرتے ہیں۔۔ جبکہ معاشرے میں تبدیلی کے لئے عملی اعتبار سے کچھ نہیں کرتے۔۔۔

 

آج  اجتماعی منافقت کی وجہ سے نہ آج ہم مور ہیں اور نا ہی کوئے۔۔۔ اشرافیہ کی محفل میں بیٹھو اور عوام کی محفل میں بیٹھو تو لگتا ہے یہ دو مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں۔۔۔  لیکن دونوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے  بے حسی۔۔۔ یون لگتا ہےہم سب اس ملک میں ایڈہاک  بنیاد پر رہ رہے ہیں۔۔۔ وفا نظریے اور  اُس  کی بدولت حاصل کی گئی اس دھرتی سے نہیں بلکہ اپنے مفادات اور اپنے نفس کی خواہشات سے ہے۔۔۔ میں تر جائون پھر چاہے میرا بھائی  جہنم میں جائے۔۔۔۔عزازیل نے غیر کی شراب پلا کر ایسا  مست کر دیا ہے کہ خود تباہی کی جانب جاتا اپنا وجود ہمیں نظر نہیں آ رہا۔۔

 زمانہ دیکھے گا جب مرے دِل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا

 

جو موجِ دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری

گُہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا

نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے

ہُوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا

کوئی دِل ایسا نظر نہ آیا، نہ جس میں خوابیدہ ہو تمّنا

الہٰی تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا

کُھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسمِ ہَوس سراپا

جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی، غُبار تھا کُوئے آرزو کا

اقبال)


Thursday, July 11, 2019

عاجزی ،انسان اور حیوان

Image result for street fight



بقول شاعر بچھڑے ہوئے احباب جب مل جاتے ہیں طاق دل افسردہ بھی سل جاتے ہیں پی کہ جو نکلتا ہوں میں سوئے چمن غنچے میری تعظیم میں کھل جاتے ہیں کئی دھائیوں کے بعد امجد سے ملاقات ہوئی۔۔۔ امجد میرے بچپن کا دوست ہے۔۔۔ اُس زمانے کا جب میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔۔۔ میرے اور امجد کے والد دونوں ہی اُس وقت فوج میں تھے۔۔۔ یعنی ہماری دوستیان دو سالوں سے زیادہ نا چلتیں اور والد کی کسی نئی چھاونی میں تبادلہ ہو جاتا۔۔۔ 1984 کے بعد آج ہماری ملاقات 2019 میں ہوئی یعنی 35 سال بعد۔۔۔ نا امجد مجھے پہچانا اور نہ ہی میں اُسے پہچان سکا۔۔۔ گفتگو کے دوران بات سامنے آئی کہ حضرت بھی منگلا کینٹ میں کہکشان نرسری آئینڈ اسکول میں اُس زمانے میں جماعت 2 بی کے طالب علم تھے یعنی میرے ہم جماعت جبکہ اُن کی رہائش بھی میرے گھر کے قریب ہی تھی۔۔۔۔ امجد سے بات ملاقات نے کئی گمی یادین تازہ کر دین۔۔۔ آج میں 42 سال کا ہو چکا ہوں جوانی آہستہ آہستہ عروج سے ذوال کی جانب گامزن ہے۔۔۔۔ شاید ہر صبح کا سفر شام کی ہی جانب ہوتا ہے ۔۔۔ اور پھر رات جو نئی صبح کی نوید دے رہی ہوتی ہے۔۔۔ خیر امجد کے جانے کے بعد میں منگلا کے زمانے میں چلا گیا۔۔۔ کیا عمدہ زمانہ تھا۔۔۔ بے شک میں اُن خوشقسمتوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنا بچپن خوب انجوائے کیا۔۔۔ یہ منگلا میں رہائش کا ہی زمانہ تھا۔۔۔ ابو کی پوسٹنگ سیاچن تھے اور فیملی کی رہائش فوج نے منگلا میں دی ہوئی تھی۔۔۔ صبح اسکول جانا ، واپس آ کر نہا دھو کر کھانا کھانا۔۔۔ پھر امی نے پڑھانے کے لئے بیٹھا لینا ۔۔۔ کام ختم ہوتا ہی تھا کہ قاری صاحب آ جاتے۔۔۔ اب عصر سے لے کر مغرب تک ہمارا وقت ہوتا۔۔۔ یہ اُسی زمانے کی بات ہے کہ ہمارا معمول تھا کہ جہاں کوئی آوارہ کُتا نظر آ جاتا ہم اُسےپتھر مارنے لگتے۔۔۔۔گو مجھے شروع سے کسی بھی جاندار کو تکلیف دینا پسند نہیں رہا لیکن ایک دن دوستوں کے ساتھ میں نے بھی ایک گزرتے کتے کو پتھر مار دیا۔۔۔کتے نے تکلیف کی حالت میں ہماری جانب دیکھا اور چائون چائون کرتے بھاگ گیا۔۔۔ واقعے کے کچھ دن ہی گزرے ہونگے کے میں دوست کے گھر سے واپس آ رہا تھا اور مجھے جلدی تھی کہ اگر مغرب کی آذان شروع ہو گئی تو امی سے مار نہ پر جائے ۔۔۔ اسی جلدی میں شارٹ کٹ مار رہا تھا کہ ۔۔۔ اُسی کتے سے سامنا ہو گیا۔۔۔ کُتے نے مجھے اکیلا دیکھا ۔۔۔ تو میری طرف غراتے ہوئے بھاگنے لگا۔۔۔ میری عمر کوئی چھ سات سال ہو گی۔۔۔ میں نے اُسے سامنے آتے دیکھ کر چیخنا اور بھاگنا شروع کر دیا۔۔۔ اتنے میں میں پھسلا اور زمین پر گر گیا۔۔۔ یہی غراتا ہوا کتا میرے پاس آیا ، میری طرف منہ کر کے بھونکا اور پھر بغیر کاٹے یا چھوئے دوسری جانب نکل گیا۔۔۔۔ وہ مجھے کاٹ سکتا تھا۔۔۔ لیکن اُس نے نہیں کا ٹا صرف میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالین اور چل پڑا۔۔۔۔ آج جب میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے اُس نے مجھے کہا ہو کہ " تو تو انسان ہے ، پھر بلا وجہ کیوں ایسی حرکتین کرتا ہے جو تجھے زیب نہیں دیتی۔۔۔ میں تو جانور ہوں اور تو افضل مخلوق ۔۔۔۔ کیا تو بھی اپنے مقام سے گرے گا اور کسی کی تکلیف سے لطف حاصل کرے گا؟؟؟ یقیناً وہ جانور مجھے لاشعوری سبق سیکھا کر گیا ۔۔۔ جانور بھی دوسرے جانور کو بلا وجہ تکلیف نہیں دیتے۔۔۔ یہ صرف حضرت انسان کی ہی خصلت ہے جو جانور تو جانور خود اپنے ہم جنس انسان کی تکلیف پر خوش ہوتا ہے ۔۔۔ اور احسن تقریم کے مقام سے گر کر اسفل السافلین بن بیٹھتا ہے.



********
کبھی سوچو فرعون جب محل سے نکلتا ہو گا کتنی خلقت ادب سے سجدہ ریز ہو جاتی ہو گی کتنے غلام کتنے فوجی ، کتنے شرطے اُس کے ارد گرد ہوتے ہونگے کیا پروٹوکال کیا جاہ و جلال ہوتا ہو گا مگر آج اُس کی لاش ، اُس کی ممی مقام عبرت بنی پڑی ہے اُس کی طاقت ، اُس کا جلال اور دولت اُسے اُس شرمندگی ، اُس ذلت سے بچانے سے ناکام ہے جس نے فرعون کو خدائی کے گمان میں مبتلا کیا۔۔۔ دنیا کی تاریخ ایسے مسخروں سے بھری پڑی ہے جو طاقت اور اقتدار کو اپنا استحقاق سمجھ بیٹھے ۔۔ جنہوں نے خلقت کو حقیر جانا اور خود کو اعلٰی آج کوئی اُن کا نام لیوا نہیں جو نام لیتا بھی ہے تو لعنت بھیج کر یا عبرت دلانے کے لئے اُن کا نام لیتا ہے۔۔ اے بنی آدم ہمارا فخر ہماری عزت عاجزی میں ہے ہم مٹی سے بنے جو پاءون تلے رہتی ہے ۔۔ لیکن پھر بھی اتنی معتبر ہے کہ کوئی پھل ، کوئی پھول اسی کے سینے کے بغیر نہیں نکل سکتا۔۔۔ اگر تو تم عزت کے طلبگار ہو اور تاریخ میں نام لکھوانا چہتے ہو تو مٹی جیسا ظرف پیدا کرو عاجزی اختیار کرو ، بندہ پروری سیکھو۔۔۔ اُس مٹی کی طرح جو سب کچھ اپنے سینے میں جزب کر لیتی ہے، حیات بخش پانی بھی ، اور لوگوں کا گند بلا بھی۔۔ لیکن واپس حیات ہی لوٹاتی ہے۔۔۔ پھول ، پھل اور سبزہ ، کھانے پینے کی اجناس اور زمین پر پھرنے والوں کی خوراک ، سر ڈھانپنے کے لئے لکڑی ، تن ڈھاپنے کے لئے لباس اے بنی آدم انسان وہی جو خلقت پر محربان ، جو مخلوک کا خیر خواہ ، جن نے اپنے عناصر ترکیب سے سیکھا اور خالق کی حکمت کو سمجھا۔۔۔ نا بچا بچا کہ تو رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

Friday, July 5, 2019

خود کلامی

Image result for darvesh



دنیاوی علوم میں سب سے اہم علم تاریخ کا علم ہے۔۔ جو قومین تاریخ کے علم کو غیر ضروری سمجھنے لگتی ہیں ۔۔وہ اپنی تباہی کا سامان اکھٹا کرنے لگتی ہیں کیونکہ اُن سے تاریخ سے لا علمی وہ غلطیان کرواتی ہے جو اُن سے پہلے کی کئی قومیں سرزد کر چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔
ادب شاعری اور فلسفہ وغیرہ میں دلچسپی جہاں قوم کے شعور کو بڑھاتی ہیں اور تہذیب کو ترقی دیتی ہیں وہیں یہ ذہنی عیاشی ، قومی کمزوری کا سبب بنتی ہیں۔۔۔ ہسپانیہ سے لے کر ،خلافت عباسیہ اور عثمانیہ اسی ذہنی عیاشی کا شکار ہو کر ذوال پزیر ہوئیں۔۔۔ جس وقت یورپ تاریخی غلطیوں کو دور کرتے ہوئے سائینس اور فوجی ترقی کے مراحل سے گزر رہا تھا ۔۔ہم مسلمان ذہنی عیاشی کا شکار شعر و ادب میں پڑے اپنی مردانہ صفات کھو رہے تھے۔۔۔ کاش ہم نے گزری کل سے کچھ سیکھا ہوتا ۔۔۔ یا آج ہم سیکھ رہے ہوتے۔۔۔

خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں




 **********************                             

آج کے صوفی کی سب سے بڑی غلطی خود شناسی کی راہ میں چلتے چلتے دنیا و مافیاسے بے ہوشی ہے۔۔ خود شناسی اگر رب کی پہچان نا کروائے اور رب کی پہچان کے باوجود انسان رب کی منشا نہ سمجھ سکے۔۔۔ اور عشق کے نام پر کیفیات کے نشے میں کھویا رہے تو کیا وہ کچھ بھی پا سکا؟۔۔ اور پھر حضور ﷺ کے حکم کے مطابق دنیا اور مافیا میں توازن قائم نا کر سکے تو کیا اسے رحمت کہیں گے؟ خود شناسی ترک دنیا نہیں بلکہ خلافت ارضی کے میعار سمجھاتی ہے ۔۔ اور پھر اُس مرد درویش کا فرض بن جاتا ہے کہ اپنی ڈیوٹی سنبھالے جس کے لئے اُس کے ابا حضرت آدم کو دنیا میں بھیجا گیا۔۔۔۔

ہو حلقہ یاران تو بریشن کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

دنیا سے بے ہوشی سے بھی بُری کیفیت یہ ہے کہ انسان مسئلے پر تو کچھ ہو مگر کاروبار دنیا میں مسئلے پر سیکھے آداب بھلا دے۔۔ یعنی وہ منافقت کی کیفیت کا شکار ہو کر دو رنگا ہو جائے۔۔۔ دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہی مسلمان کا اولین فرض ہے۔۔۔ جو اس توازن کو قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ کامیاب اور جو یہ توازن قائم نا کر سکا وہ ہی در اصل ناکام


                              **********************                                                    

صاحبان عشق ہی با اُمید اور سخی ہوتے ہیں۔۔ ان کی صحبت سے کوئی کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔۔ نا امیدی کی بڑی وجہ عشق سے دوری یعنی محبوب سے محبت پر شک اور گمان بد کی موجودگی ہے۔۔۔ گمان بد بھی وہ جو خود اپنی سچائی کو متنازع ہنادے۔۔۔
حق کی بات تو یہ ہے کہ اگر مجازی عشق بھی ہوس کی جگہ واقعی عشق ہو تو اس عشق  کا اختتام بھی عشق حقیقی ہے۔۔۔ کیونکہ  عشق کا مفہوم ہی اپنی ذات کو محبوب کی ذات میں فنا کر دینا ہے۔۔۔ 
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر
عشق  اُن مردان حُر کا شیوہ ہے جن کے نذدیک اُن کی ذات کی فنا اور محبوب کا قائم ہو جانا ہی در اصل کامیابی ہے۔۔۔ جس گُل کو سونگھتا ہوں بو تیری ہے۔۔۔عاشقین حق پُر امید ، ایثار و قربانی کا پیکر ، صفات و خیالات میں شُدہ   ، محبوب کی رضام میں  سب کچھ لُٹانے کو تیار ، یعنی سخی و فیاض ہوتے ہیں  اور یہ لوگ اُس آئینے کی طرح ہوتے ہیں جس میں خالق کی حسن تخلیق برملا نظر آتی ہے۔۔۔عشق کی راہ میں سب سے بڑا امتحان، سب سے بڑی آزمائش  شک کا پیدا ہونا ہے۔۔۔ شیطان کا سب خطرناک ہتھیار مخلوق کے قلوب میں شک کا بیج بیجنا ہے۔۔۔ پس جو مسافر عشق ہو اُس کی کامیابی صرف اور صرف  منزل پر نظر اور راستے کے مناظر سے بے ہوشی میں  ہے۔۔ ورنہ محبت کبھی عشق نہیں بنے گی اور ایک ایسی انا تشکیل پائے گی جو راستوں میں ایسا بھٹکائے گی کہ منزل ہر قدم دور ہوتی جائے گی۔۔۔

پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی

Tuesday, March 25, 2014

ذہنی غلامی ، قومی کرادر اورقومی طاقت



بنی اسرائیل کو فرعون سے آزادی مل چکی ہے ۔۔۔ اتمامِ حجت ہو چکی ہے ۔۔۔وہ اپنی آنکھوں سے جناب موسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں رونما ہونے والے معجزے دیکھ چکے ہیں ۔۔۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی آنکھوں سے فرعون کے لشکر کو اپنے پورے جاہ وجلال سے سمندر برد ہوتے دیکھا ہے۔۔فرعون اور اس کا لشکر ہی سمندر برد نہیں ہوا بلکہ گروہ ابلیس کے پیروکاروں کی جھوٹی خدائی ، اور ظلم و نسل پرستی کے غلیظ بت حق اور توحید  کے سامنے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔۔۔
 اللہ کی رحمت سے صدیوں کی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی ہے۔۔۔ اتنی بڑی نعمت ۔۔۔ اتنی بڑی رحمت اور بنی اسرئیل ، ہر سو شادمانی ہی شادمانی ہے۔۔۔۔
موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے جاتے ہیں۔۔ پیچھے اپنے بھائی اور وقت کے نبی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔فرعون کا وفادار غلام سامری ، بچھڑا بناتا ہے۔۔۔ ویسا بچھڑا جیسا مصری معبدوں میں ہوتا تھا۔۔۔ اور بنی اسرائیلی اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ ہارون علیہ السلام اور ان کے کچھ پاکیزہ حواری انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔۔۔
موسیٰ علیہ السلام طور سے اترتے ہیں ۔۔۔ قوم بت پرست بن چکی ہے اور افسوس ناک بات کہ پوجا بھی اسی بت کی جس کی پوجا ۔۔۔ مصری کرتے تھے۔۔۔ افسوس ہے تجھ پر اے قوم بنی اسرائیل ۔۔۔ نبیوں کی اولاد ہے تو۔۔۔ لیکن غلامی نے تجھے کم ظرف  و کم عقل بنا ڈالا ہے ۔۔۔ زندگی کے وہ پیٹرن اور عادات جو تو نے وقت غلامی میں سیکھے ۔۔۔ اب وہ تیری فطرت کا حصہ بن گئے ہیں۔۔۔ تو جانتے ہوئے بھی جاہل۔۔۔ معجزات و آیات خداوندی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اندھا رہنے پر کیوں بے تاب۔۔۔
جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے۔۔۔ جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کر دیتی ہے۔۔۔ غلام آقا کو لا شعوری آئڈیل مان لیتا ہے۔۔۔ جسمانی آزادی کے بعد ہر شے اپنے آقا کی طرح کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آزادی کے بعد بھی اپنے آقا کی ہی خوشنودی کی چاہ رکھتا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ ایک عجیب قسم کی خودی کا شکار بن جاتا ہے اور اپنی ذہنی اور جھوٹی انا کی تسکین اور بھوک مٹانے کی خاطر تمام اخلاقیات بھلا کر چلنے کو عین حق سمجھتا ہے۔۔۔
ذہنی غلامی ان رویوں کا باعث بنتی ہے جو مزید غلامی کا باعث بنتے ہیں۔۔۔ جب عدل کا پیمانہ خواہش نفس اور ذاتی یا گروہی مفاد بننے لگیں تو معاشرے تباہی کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔۔۔
علم سیاسیات کی رو سے قومی طاقت کو چند عوامل کے حاصل سے ناپا جاتا ہے جن میں جغرافیہ، فوجی طاقت، معاشی طاقت ، آبادی ، انڈسٹریل صلاحیت، قومی کردار اور حوصلہ وغیرہ شامل ہیں۔۔۔
ان سب عوامل میں اہم ترین قومی کردار اور حوصلہ ہے ۔۔۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ قومی کردار ہی وہ اہم ترین سبب تھا جس سے قوموں کو عروج نصیب ہوا۔۔۔ جرمنی دو دھائیوں میں دنیا سے ٹکر لینے کو تیار ہو گیا۔۔۔ جاپان ناگا ساکی اور ہیروشیما کی تباہی کی کچھ ہی سالوں بعد دنیا کی معاشی طاقت بن  کر ابھرا۔۔۔۔ چین جو افیمیون کا ملک کہلاتا تھا ۔۔ آج دنیا کی سپر پاور ہے۔۔۔
قومی کردار ، قوم میں بسنے والے افراد کے کردار کا مجموعہ ہوتا ہے۔۔۔ جب قوم میں سچ اور باطل، فرض اور حق کا تصور پختہ ہو جائے تو ترقی اور کامیابی  ہر موڑ پر قدم چومتی ہے۔۔۔ اس کے برعکس اگر حق و باطل پر ذاتی اور گروہی مفادات غالب آ جائین تو امن اور خوشحالی منہ موڑ لیتی ہے۔۔ ہر طرف افراتفری ہوتی ہے۔۔۔ طاقتور کمزور کی ہڈیان چباتا ہے۔۔۔ اور کمزور اس کا بدلہ اپنے سے کمزور  اور ظلم کا پہلے سے شکار معاشرے سے لیتا ہے۔۔۔
معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔۔ ادارے بےکار ہو جاتے ہیں۔۔ کرپشن، ڈر ، بے راہروی ، غربت اور بے حسی ڈیرے ڈال دیتی ہے۔۔
فرعون سے آزادی اکثریت کے لئے جسمانی آزادی تھی ۔۔۔ اسی لئے غلام پھر اپنے آقاؤن کے طریقے اپنانے لگے۔۔ اللہ نے اپنی نبی موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کی موجودگی کی بدولت پھر سدہرنے کا موقع دیا لیکن وہ بدکرداری جو فرعون کی ذہنی غلامی کی بدولت آ چکی تھی اس نے من و سلویٰ چھوڑ کر اسرائیلیون کو مسور ، ککڑی اور پیاز وغیرہ کی فرمائیش پر مجبور کیا۔۔۔ گویا نا شکری اور من مانی کی طرف راغب کیا۔۔۔ اللہ اس قوم پر رحمتیں فرماتا رہا ۔۔ اس میں نبی بھیجے مگر یہ نبیوں  سے برا سلوک کرتے رہے ، اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتے رہے اور ان کی  نفس پرستی انہیں تقسیم در تقسیم کرتی رہی۔۔۔ یہ آیات خداوندی کی اپنی پسند کی تشریحین کرنے لگے۔۔۔ ان کے علماء بھی سوداگر اور ان کے لیڈر بھی سوداگر بن گئے۔۔۔مفاد اور صرف مفاد ان کا پیمانہ عدل ٹھہڑا یہاں تک کے ایک وقت آیا کہ اللہ رب العزت نے ان کو لعین ٹھہرا دیا۔۔ اور پھر بے بسی اور بے کسی  ان کا مقدر بن گئی ۔۔ کبھی ٹائیٹس نے انھین مارا تو کبھی ہٹلر ان کی قسمت بنا ۔۔۔اور یہ دنیا بھر میں خوار پھرتے ،چھپتے اور بھٹکتے  رہے ۔۔۔
پچھلے ہفتے بیٹے کا نتیجہ تھا ۔۔۔ اس کے ایک کلاس فیلو کے والدین بھی آئے ہوئے تھے۔۔
والدہ ٹیچر سے کہہ رہی تھی۔۔
We have banned urdu speaking in our house. Yester day I over heard my son talking to his father in urdu at the end of the talk he requested his father not to tell this to mama
ہم نے گھر میں اردو بولنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔۔ کل میرا بیٹا اور اس کے والد اردو میں بات کر رہے تھے۔۔ بات ختم کرنے کے بعد  بیٹے نے اپنے باپ کو درخواست کی کہ امی کو نا بتائیے گا۔۔۔
محترمہ بولی آپ لوگوں کی مشکور ہوں کے آپ کی وجہ سے بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے اور انگریزی بھی اچھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔
میں نے اور ام الصمد نے بڑی مشکل سے ہنسی روکی۔۔۔ لیکن گھر آتے ہوئے میرے دل میں غلامی اور آزادی پر سوال اٹھنے لگے۔۔ غلامی کیا ہے؟؟ آزادی کیا ہے؟؟؟
شام گھر  سکائیپ پر ماموں  سے لندن بات ہوئی۔۔۔ پتا چلا کہ ماشاء اللہ میرے ماموں زاد بھائی کو ویسٹ منسٹر کالج میں سکالر شپ ملی ہے۔۔۔ اس کے علاوہ اسے برطانیہ کے ٹاپ کے پانچ کالج سکالر شپ دینے کی آفر کر چکے ہیں۔۔۔ بہت ہی خوشی کی بات تھی۔۔۔ کہ میرا بھائی نے اپنی محنت سے پاکستان کا نام اونچا کیا ہے۔۔۔
میرے مامون کا بیٹا یعنی میرا کزن اپنی قابلیت سے برطانیہ کے صف اول کے کالج ویسٹ منسٹر کالج میں سکالر شپ پاتا ہے۔۔۔ برطانیہ کے ٹاپ کے پانچ کالج اسے سکالر شپ دینے کی آفر کر رہے ہیں کسی گورے کو خیال نہیں کہ وہ ایک پاکستانی اور ایک مسلمان کو اتنا اعزاز اور رسپیکٹ دے رہے ہیں۔۔
دوسری طرف میری بیٹی جو پلے گروپ کا انٹر ویو اس طرح دیتی ہے کہ چار پانچ بار انٹرویو لینے والی اس کے اعتماد اور انٹیلی جنس کی تعریف کرتے ہوئے اسے بہت انٹیلی جینٹ بچی کہتی ہے ۔۔۔ اس سکول میں رہ جاتی ہے۔۔۔ میرے جانے پر بتایا جات ہے کہ اس کے 78 فیصد مارکس تھے جبکہ میرٹ 85 فیصد تھا۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ کا نمبر دینے کا میعار کیا ہے تو خاموشی۔۔۔ نمبر جو ٹیچر نے دیئے وہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہوں تو انکار کر دیا جاتا ہے۔۔۔ پتہ چلتا ہے کہ کسی کی سفارش سے کوئی آگے آ گیا اور یہ پیچھے کر دی گئی۔۔۔ ایک جاننے والی ٹیچر کہتی ہے کہ آپ کو سفارش کرانی چاہئے تھی کیونکہ ڈیڈھ سو بچے رکھنے تھے اور چار سو سے زیادہ نے اپلائی کیا۔۔۔

آج میں ،با حیثیت میڈیا پرسن اور سوشل سائینٹسٹ  پاکستان کو لاحق بیماریوں کا جائیزہ لیتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کے مں حیثیت قوم ہم بھی بنی اسرئیل کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔۔۔ اللہ رب العزت کی لاتعداد رحمتوں کے باوجود ہم کمزور ہیں ۔۔ جس کی وجہ اب تک ہماری اشرافیہ اور عوام کو لاحق انگریز کی ذہنی غلامی ہے۔۔ تھیوری آف سٹریٹیجک کلچر پر کئے پروفیسر حسن عسکری رضوی اور برگیڈئیر فیروز حسن خان کے کام کے مطابق پاکستانی اشرفیہ ایک طرف تو خود کو مسلم رویات کا امیں سمجھتی ہے دوسری طرف برطانوی ٹریڈیشنز پر فخر بھی کرتی ہے اور یورپ کی تقلید کو ترقی کا راستہ سمجھتی ہے۔۔۔
عوام ہمیشہ اشرفیہ کی تقلید کرتی ہے۔۔۔ اور اشرفیہ وسٹرن یا بریٹش ٹرینڈ ہونے پر جہاں ناز کرتی ہے وہاں بھول جاتی ہے کہ  انگریز حاکم تھا  ۔۔۔ اس نے برصغیر فتح کیا تھا۔۔ اس کو زیب دیتے تھے پروٹوکال اور عیاشیان ۔۔۔ جبکہ یہ اشرفیہ جن پر حکومت کر رہی ہے وہ اسی کے ہم نسل اور ہم وطن ہیں۔۔۔
اشرافیہ کے اسی رویے کی وجہ سے عوام بھی کنفیوز  اور انتشار کا شکار ہے اور ابھی تک کوئی سمت نہیں چن پائی اور من مانی اور بے عدلی کو وطیرہ بنائے ہوئے ہے۔۔

 پاکستان کو اگر موجودہ حالات سے نکالنا ہے اور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لانا ہے تو قوم کو شعوری طور پر تعلیم اور کردار سازی پر توجہ دینی ہو گی ۔۔۔ عدل اور انصاف کو ذاتی یا گروہی مفاد پر مقدم جاننا ہو گا۔۔۔ ورنہ  جہان پلے گروپ کے لئے سفارش درکار ہو وہ قوم اگلے ہزار سال میں بھی برطانیہ یا مغرب کے پاؤن کی خاک تک نہیں پہنچ سکتی۔۔۔

اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ذلتون کے گڑھے  میں گرنا ہے یا دنیا میں سر اٹھا کر خوشحال زندگی گزارنی ہے۔۔۔
اللہ ہم پر رحم فرمائے اور عظمت کردار عطا فرمائے۔۔۔
آمین ۔۔ ثم آمین